جوانی میں جلدی شادی کرنے کا شوق لڑکوں کو ہوتا ہے یا لڑکیوں کو؟ ماہرین نے نئی تحقیق میں بتادیا

جوانی

کائنات نیوز! شادی کرنے اور گھر بنانے کے معاملات میں خواتین بہت سنجیدہ ہوتی ہیں جبکہ مرد عام طور پرذمہ داری اٹھانے اور ایک خاتون کے ساتھ زندگی نبھانے کا وعدہ کرنے سے کتراتے ہیں۔عالمی تحقیقاتی ادارے ’پیو ریسرچ ‘ کی ایک حالیہ تحقیق نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ شادی کرنے اور گھر بنانے کے بارے میں خواتین اور مردوں کا رویہ ایک جیسا ہوتا ہے

اور دونوں کے لئے کامیاب ازدواجی زندگی برابر اہمیت رکھتی ہے۔شادی کرنے کی دوسری بڑی وجہ محبت ہے، سروے میں شامل 15ہزار خواتین اور مردوں میں سے تقریباً 83فیصد نے کہا کہ ان کیلئے یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انہیں کسی نہ کسی دن شادی کرنا ہے۔جب محبت میں وفاداری کا سوال کیا گیا تو عورتیں مردوں پر بازی لے گئیں اور88فیصد نے بتایا کہ وہ اپنے پیار میں مکمل وفادار ہیں جبکہ 83فیصد مردوں نے خلوص اور وفاداری کا اعتراف کیا۔اسی طرح 57فیصد خواتین نے کہا کہ انہوں نے اپنے محبوب سے تعلق ہمیشہ کیلئے قائم کیا ہے جبکہ 51فیصد مردوں نے یہی جواب دیا۔ محبوب سے بے وفائی کا 3فیصد خواتین اور 5فیصد مردوں نے اعتراف کیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ

مردوں اور خواتین کے محبت اور جنسی رویہ معمولی فرق ماحول اور معاشرے کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ بات درست نہیں کہ یہ فرق فطری طور پر پایا جاتا ہے۔ بھارتی شہر حیدرآباد اور اس کے گرد و نواح میں کم سن لڑکیوں کی بوڑھے عرب باشندوں سے شادیوں کا معاملہ کافی عرصے سے میڈیا میں زیر بحث ہے۔ اب یہ شادیاں کروانے والے ایک دلال نے ایسے انکشافات کر دیئے ہیں کہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔انڈیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 30سالہ حاجی خان نامی یہ درازقامت دبلا پتلا شخص ان شادیوں میں بروکر کا کردار ادا کرتا تھا تاہم اب وہ پولیس کا مخبر بن چکا ہے۔ اس نے ’تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے انکشاف کیا ہے کہ ”میں فی شادی 10ہزار بھارتی روپے (تقریباً 16ہزار پاکستانی روپے) کمیشن لیتا تھا۔

میں عرب باشندوں کی بھارتی لڑکیوں سے دو طرح کی شادیاں کرواتا تھا، ایک پکی اور دوسری ٹائم پاس۔ پکی شادی میں عرب شہری دلہن کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور ٹائم پاس شادی تب تک چلتی تھی جب تک عرب شہری بھارت میں موجود رہتا تھا، واپس جانے سے پہلے وہ اپنی دلہن کو طلاق دے دیتا تھا۔“حاجی خان نے مزید بتایا کہ ”جب کوئی عرب شہری ہم سے رابطہ کرتا ہے تو ہم 20سے 30لڑکیاں ہوٹل میں قطار میں کھڑی کر دیتے اور وہ ان میں سے کوئی پکی یا عارضی شادی کے لیے ایک منتخب کر لیتا ہے۔ باقی لڑکیوں کو 200روپے دے کر واپس گھر بھیج دیا جاتا ہے۔عرب باشندے ان لڑکیوں کے عوض ان کے والدین کواوسطاً 80ہزار روپے تک ادا کرتے ہیں۔

یہ عرب باشندے اپنے ساتھ استعمال شدہ عروسی لباس، صابن اور رات کو پہننے والے کپڑے لے کر آتے اور ان میں سے زیادہ تر ٹائم پاس شادیاں ہی کرتے ہیں اور شادی کے وقت ہی بعد کی کسی مقررہ تاریخ کے طلاق نامے پر بھی دستخط کر دیتے ہیں۔ جب وہ لوگ بھارت چھوڑ کر چلے جاتے، تب ہم یہ طلاق نامہ ان لڑکیوں کو دے دیتے ہیں۔یہ تمام شادیاں مسلمان نکاح خواں اور قاضی کرواتے ہیں جو بوقت ضرورت پیسوں کے عوض لڑکیوں کی عمر بھی زیادہ لکھ دیتے ہیں کیونکہ اکثر لڑکیاں کم سن ہوتی ہیں اور ابھی شادی کی قانونی عمر کو نہیں پہنچی ہوتیں۔ان لڑکیوں میں سے اکثر کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ شادی کے 15سے 20دن بعد انہیں طلاق ہو جائے گی۔“

اپنی رائے کا اظہار کریں