اے اللہ ميں اپنے آپ كو تيرے مطيع كر ديا اور اپنا معاملہ تيرے سپرد كر ديایہ دعا کریں اورپھر دیکھیں

تيرے سپرد

فہد نیوز ! جب مئوذن أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کہے تو کیا جواب کے ساتھ درود پڑھا ج اتباع رسول کا تقاضہ یہ ہے کہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں جو دعا یا ذکر جس طرح سكھايا اور جیسے اس كى تعليم دى ہے ہم بغير كسى کمی و بیشی کے اس کا التزام کریں ۔ جیسے براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث دلیل ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے انہيں سوتے وقت ايك دعا سكھائى جس میں برای بن عازبؓ نے کچھ تبدیلی کر دی تو رسول اللہﷺ نے انہيں منع فرمایا اور کہا کہ جیسے میں تمہیں سکھاوں ویسے ہی کہو ۔

چنانچہ صحا رسولﷺ براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ” جب تم سونے كے ليے اپنے بستر پر جاؤ تو نماز كے وضوء كى طرح وضوء كر كے اپنے دائيں پہلو پر ليٹ جاؤ پھر يہ دعا پڑھو: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ “اے اللہ ميں اپنے آپ كو تيرے مطيع كر ديا، اور اپنا معاملہ تيرے سپرد كر ديا، اور اپنا چہرہ تيرى طرف پھير ليا تيرى رغبت كرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے نہ تجھ سے پناہ كى جگہ ہے اور نہ كوئى بھاگ كر مگر تيرى طرف، ميں تيرى كتاب پر ايمان لايا اور تيرے نبى پر ايمان لايا جسے تو نے بھيجا اگر تمہيں اس رات موت آ جائے تو تم فطرت پر ہو، اور يہ كلمات تمہارے آخرى كلمات ہوں اس كے بعد كسى سے بات مت كرو، براء بن عازب بيان كرتے ہيں تو ميں نے يہ دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے دہرائى اور جب اللھم آمنت بكتابك الذى انزلت پر پہنچا تو ميں نے اس كے بعد رسولك كہہ ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں كہو

و نبيك الذى ارسلت “صحيح البخارى / رقم الحديث : ٢۴٧ – صحيح المسلم / رقم الحديث : ٢٧١٠ لہٰذا اذان کے جواب کا بھی وہی حکم ہے جو ہمیں صحیح احادیث میں دیا گیا ۔عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ “.سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بیان کیا کہ ”جب تم اذان سنو تو مؤذن کے الفاظ دہراتے رہو۔“صحيح المسلم / كتاب الصلاة / رقم الحدیث : ٨۴٨ لہٰذا اس حدیث کے مطابق جب ایک شخص اذان سنتا ہے تو اسے وہی کلمات مثل موذن کے دہرانا ہونگے جو مئوذن ادا کرے ۔ اِلاّ کہ وہ (الحَيْعَلَتَين ) یعنی ( حيَّ على الصلاة اور حيَّ على الفلاح ) کے کلمات سنے اور کہے (لاحول والا قوۃ الا باللہ ) ۔ صحیح المسلم ہی کہ ایک اور روایت میں ہے : عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ أَحَدُكُمُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”

جب مؤذن «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» اور «أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے۔ اور جب مؤذن «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کہے تو سننے والا «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہے۔ پھر مؤذن جب «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہے تو سننے والے کو «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہنا چاہئیے۔ اس کے بعد مؤذن جب «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» اور «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دھرانے چاہئیں اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“ (بشرطیکہ ارکان اسلام کا بھی پابند ہو)۔ صحيح مسلم كتاب الصلاة / رقم الحدیث : ٨۵٠ یہی حکم اقامت الصلاة کا ہے ۔ درج بالا وضاحت سے يہ ثابت ہوا كہ مؤذن جب اذان کہے تو بلا کسی معمولی زیادتی یا کمی کے اذان كا جواب ديں ۔ اور ہمیں لائق نہیں ہے کہ ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كى زيادتى کریں اور صحیح احادیث سے منحرف ہو کر بدعت کے مرتکب ٹہیریں ۔ کیونکہ ایسا کرنا صحابہ كرام میں سے كسى ايک سے بھی ثابت نہيں كہ انہوں نے اذان كے جواب ميں كچھ زيادتی كی ہو ائے گا ؟؟

اپنی رائے کا اظہار کریں