کیا آپ جانتے ہیں؟حضرت عزرائیل علیہ السلام کو موت کا فرشتہ کیوں مقرر کیا گیا؟ انتہائی دلچسپ واقعہ

حضرت عزرائیل علیہ السلام

کائنات نیوز! جبرائیل علیہ السلام پر رب العالمین کا حکم ہوا کہ ایک مشت خاک زمین پر سے لاؤ، بحکم الہٰی جبرائیل علیہ السلام بلندی سے آسمان کی فوراً اس زمین پر آئے کہ اب جہاں خانہ کعبہ ہے چاہا کہ ایک مشت خاک لیں۔ اس وقت زمین نے ان کو قسم دی کہ اے جبرائیل برائے خدا مجھ سے خاک مت لے کہ اس سے خلیفہ پیدا ہو گا اور اس کی اولاد بہت عاصی و گ-ن-ہ-گ-ا-ر مستوجب ع-ذ-ا-ب ہو گی، میں مسکین خاک پا ہوں

طاقت و تحمل ع-ذ-ا-ب خدا کا نہیں رکھتی ہوں، اس بات کو سن کر حضرت جبرائیل علیہ السلام خاک سےباز آئے۔ غرض اسی طرح سے جبرائیلؑ پھر گئے اور میکائیل اور اسرافیل علیہ السلام سے بھی یہ کام انجام کو نہ پہنچا۔ تب عزرائیل کو بھیجا ان کو بھی زمین نے منع کیا انہوں نے نہ مانا اور کہا کہ جس کی قسم دیتی ہے میں اس کے حکم سے آیا ہوں میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا تجھ کو لے ہی جاؤں گا، پس عزرائیلؑ نے ہاتھ نکال کر ایک مٹھی بھر خاک اسی سرزمین سے لے کر عالم بالا پر چلے گئے اور عرض کی کہ خداوند تو دانا و بینا ہے، میں نے یہ حاصل کیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عزرائیل علیہ السلام میں اس خاک سے زمین پر ایک خلیفہ پیدا کروں گا،

اور اس کی جان ق-ب-ض کرنے کے لئے تجھی کو مقرر کروں گا۔ تب عزرائیل علیہ السلام نے معذرت کی کہ یا رب تیرے بندے مجھے د-ش-م-ن جانیں گے اور گالیاں دیں گے۔ جناب باری نے فرمایا اے عزرائیل تو غم مت کر، میں خالق مخلوقات کا ہوں ہر ایک م-و-ت کا سبب گردانوں گا اور ہر شخص اپنے اپنے مرض میں گ-ر-ف-تا-ر رہے گا۔ تب د-ش-م-ن تجھ کو نہ جانے گا۔ کسی کو درد میں مبتلا کروں گا اور کسی کو تپ دق میں اور کسی کو پانی میں غ-ر-ق کروں گا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا فرمانے کا ارادہ کیا :تو حضرت جبرائیل ؑ کو زمین سے کچھ مٹی لانے کو کہاگیا ۔حب حضرت جبرائیل ؑ مٹی لینے گئے تو زمین نے جبرائیل ؑ سے کہا :

میں تجھے اس ذات کی قسم دیتی ہوں جس نے تجھے میرے پاس بھیجاتم یہ مٹی نہ لے کر جاؤاس مٹی سے جو انسان بنے گا وہ فسا د پھیلائے گااورخ ون بہائے گا۔اوراس کو آگ میں جلنا پڑے گا۔یہ سن کر جبرائیل ؑ اللہ کی بارگاہ میں پہنچے۔ تو اللہ نے دریافت کیا کہ مٹی کیوں نہیں لائےتو حضرت جبرائیل ؑ نے جواب دیا کہ اے اللہ جب اس نے آپ کی عظمت کا واسطہ ڈالا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ تو اللہ تعا لیٰ نے حضرت اسرافیل ؑ کو بھیجا اور اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔پھر میکائیل ؑ کو بھیجا ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔حتیٰ کہ ملک الموت عزرائیل ؑ کو بھیجا گیا تو زمین نے جب عزارئیل ؑ کو یہی جوا ب دیا تو عزرائیل ؑ نے فر ما یا : اے زمین جس ذات نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ تجھ سے زیادہ اطاعت و فرمانبردار ہے۔

تو میں اس کے حکم کے سامنے تیر ی بات کیسے مان سکتا ہوں۔چنانچہ آ پؑ نے زمین کی مختلف جگہوں سے کچھ مٹی لی اور اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیاکیونکہتم اس مٹی کو لے کر آئے ہو اب تم ہی ان کی روح کو قبض کیا کرو گے۔تو آپؑ نے کہا لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگیں گے۔تو اللہ نے وعدہ فرمایا: کہ کوئی تمہار ا نام نہیں لے گا۔ اور نہ کوئی برا بھلا کہے گا۔ایک حدیث کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ اچانک گھر میں ایک خوبصور ت نوجوان شخص داخل ہوا۔ آپ ؑ نے پوچھا : اے اللہ کے بندے! تجھے اس گھرمیں کس نے داخل ہونے دیا ہے۔ اس نے کہا کہ گھر والے نے۔ آپ ؑ نے فرمایا بے شک صاحب ِ خانہ کو اس کا اختیا ر ہے۔ یہ تو بتاؤ تم کون ہو۔ اس نے کہا کہ میں ملک الموت ہوں۔

آپ ؑ نے فرما یا : مجھے تمہاری چند نشانیاں بتائی گئیں ہیں۔ مگر تم میں ان میں سے کوئی نشانی بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ تو ملک الموت نے پیٹھ پھیر لی اور آپ ؑ نے دیکھا۔ کہان کے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں نظر آنے لگیں۔ اور جسم کا ہر بال نوکدار تیر کی طرح کھڑا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے فوراًتعوذ پڑھااور کہا کہ آپ اپنی پہلی شکل پر تشریف لائیں۔جو اس کی ملاقات کو بہتر جانتا ہے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب اس نے پیٹھ پھیری تو وہ شکل نظر آئی جس سے وہ برے لوگوں کی روح کو قبض کرتا ہے۔ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں ہے۔ کہ حضرت ابراہیم ؑ نے معلوم کیا : ا ے ملک الموت!آپ مجھے وہ شکل دکھائیں جو کفار میں نظر آتے ہیں۔ تو اس نے کہا کہ یہ آپ کی طاقت سے باہر ہے۔

ملک الموت نے وہ صورت دکھانا شروع کی اور فرمایا :آپ اپنا منہ موڑ لیجیے۔اب جب دیکھاتو سیاہ شخص کے سرمیں آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ اس کے جسم سے بال کی بجائےتیر اور منہ سے آگ نکل رہی ہے۔ یہ حال دیکھ کر آپ پر غشی طاری ہوگئی ۔ اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ ملک الموت اپنی شکل میں موجود تھے۔ اب ذرا یہ بتائیں کہ مومن کی روح کیسے قبض کرتے ہیں۔ تو کہا ذرا منہ پھیر لیجیے۔آپ ؑ نے منہ پھیر کر دیکھا تو آپ کے سامنے ایک حسین نوجوان کھڑا تھا۔جس نے کپڑے سفید اور جسم مہک رہا تھا۔ آپ ؑ نے منظر دیکھ کر فرمایا اگر مومن کو آپ کے دیدار کی دولت ہی نصیب ہوجائے تو اسے کے لیے یہی کافی ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں