مردہ لوگوں میں سننے کی صلاحیت ہوتی ہے یا نہیں؟ ایک بارحضور ﷺ کا فرمان جان لیں!

مردہ لوگوں

کائنات نیوز! فتح مبین غزوہ بدر میں قریش کے قتل وغارت ہونے والے نامی گرامی سرداروں اور انکے حواریوں کو ایک گڑھا کھودکر اس میں ڈال دیا گیا تھا۔ تاکہ ان کو اجتماعی دفن کردیا جائے۔ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں ”ہم نے آدھی رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی۔ آپﷺ فرما رہے تھے”او گڑھے والو، تم نبی کا کتنا ہی بُرا کنبہ تھے، تم نے مجھے جھٹلایا جب اور لوگوں نے میری تصدیق کی

، تم نے مجھے گھر سے نکال دیا جب دوسروں نے مجھے پناہ دی، تم نے مجھ سے جنگکی، جبکہ لوگوں نے میری نصرت کی“ پھر سرکار دوجہاں ﷺ نے سرداران قریش جو نعشوں تلے دبے اس گڑھے میں پڑے تھے، انہیں اور انکے دیگر ساتھیوں کومخاطب کیا ”او عتبہ بن ربیعہ، او شیبہ بن ربیعہ، او امیہ بن خلف، او ابوجہل بن ہشام، کیاتم نے اپنے ربّ کا وعدہ سچا ہوتے ہوئے دیکھ لیاہے؟ میں نے تواپنے ربّ کا وعدہ پورا ہوتے دیکھ لیا ہے“ صحابہ کرامؓ نے پوچھا ”یارسول اللہ، آپ ان لوگوں کو خطاب کر رہے ہیں جو مر چکے ہیں؟“ آپﷺ نے جواب میں فرمایا ”میں جو باتیں ان سے کر رہا ہوں، تمھاری سننے کی صلاحیت ان سے زیادہ نہیں ہے، تاہم یہ جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔

ایک دفعہ ایک عیسائی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے اور ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رُو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ ان میں سے ایک سوال تھا کہ ’’وہ کون سی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سوال کا جواب تحریر فرمایا۔ ’’وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔

حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی۔‘‘حضر ت یونس علیہ السلام کا واقعہ جس کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایاتِ حدیث و تاریخ سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینوی میں بستے تھے، ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتائی ہے ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو بھیجا، انھوں نے ایمان لانے سے انکار کیا،حق تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کر دو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس علیہ السلام نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو

اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس علیہ السلام کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، اس لئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس علیہ السلام رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کر لو کہ صبح کو ہم پر عذاب آئے گا، حضرت یونس علیہ السلام با ارشاد خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو عذابِ الہی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگااور فضاء آسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف بایمان ہو جائیں اور پچھلے انکار سے توبہ کر لیں

مگر یونس علیہ السلام کو نہ پایا تو خود ہی اخلاصِ نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے، بستی سے ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کر دیے گئے، ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجز و زاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ و بکا سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور عذاب ان سے ہٹا دیا جیسا کہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، روایات میں ہے کہ یہ عاشورہ یعنی دسویں محرم کا دن تھا۔ ادھر حضرت یونس علیہ السلام بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا، ان کے توبہ استغفار کا حال ان کو معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ

میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آ جائے گا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت نہیں پیش کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یونسؑ کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دے کر قتل کر دیا جائے گا۔ انبیاء علیہم السلام ہر گناہ و معصیت سے معصوم ہوتے ہیں مگر انسانی فطرت و طبیعت سے جدا نہیں ہوتے، اس وقت یونس علیہ السلام کو طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الٰہی اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قرار دیا جاؤں گا، اپنی جگہ واپسجاؤں کس منہ سے جاؤں اور قوم کے قانون کے مطابق گردن زنی بنوں، اس رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کرکے چل دیے یہاں تک کہ بحرِ روم کے کنارہ پر پہنچ گئے

وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار ہو رہے تھے، یونس علیہ السلام کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسطِ دریا میں پہنچ گئی تو دفعتہ ٹھہر گئی، نہ آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے چلتی ہے، کشتی والوں نے منادی کی کہ ہماری اس کشتی منجانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گنہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہو جاتا ہے تو یہ کشتی خود بخود رک جاتی ہے،اس آدمی کو ظاہر کر دینا چاہیے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر مصیبت نہ آئے۔ حضرت یونس علیہ السلام بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا غلام گناہ گار میں ہوں، کیونکہ اپنے شہر سے غائب ہو کر کشتی میں سوار ہوا ایک طبعی خوف کی وجہ سے تھا

بازنِ الٰہی یہ تھا، اس بغیر ازن کے اس طرف آنے کو حضرت یونس علیہ السلام کی پیغمبرانہ شان نے ایک گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بلا اذن کے نہیں ہونی چاہیے تھی اس لیے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو تو تم سب اس عذاب سے بچ جاؤ گے، کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انھوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جس کا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈالا جائے، اتفاقاً قرعہ میں حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا کہ کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ بحکم قضاء و قدر حضرت یونس علیہ السلام کا ہی نام آتا رہا، قرآنِ کریم میں اس قرعہ اندازی اور ان میں یونس علیہ السلام کا نام نکلنے کا ذکر موجود ہے

،فساھم فکان من المد حضین یونس علیہ السلام کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انھوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا ہے اور کسی پیغمبر سے اس کا امکان نہیں، کیونکہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن پیغمبر کے مقام بلند کے مناسب نہ تھا کہ محض خوفِ طبعی سے کسی جگہ بغیر اذن خداوندی منتقل ہو جائیں، اس خلافِ شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا۔ اس طرف قرعہ میں نام نکل کر دریا میں ڈالے جانے کا سامان ہو رہا تھا دوسری طرف ایک بہت بڑی مچھلی بحکم خداوندی کشتی کے قریب منہ پھیلائے ہوئے موجود تھی یہ دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے، جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا تھا کہ

یونس علیہ السلام کا جسم جو تیرے پیٹ کے اندر رکھا جائے گا یہ تیری غذا نہیں بلکہ ہم نے تیرے پیٹ کو ان کا مسکن بنایا ہے، یونس علیہ السلام دریا میں گئے تو فوراً اس مچھلی نے منہ میں لے لیا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یونس علیہ السلام اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز رہے یہ ان کو زمین کی تہہ تک لے جاتی اور دوردراز کی مسافتوں میں پھراتی رہی، بعض حضرات نے سات، بعض نے پانچ دن اور بعض نے ایک دن کے چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت بتائی ہے۔ حقیقتِ حال حق تعالیٰ کو معلوم ہے، اس حالت میں حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعاء کی لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا

اور بالکل صحیح و سالم یونس علیہ السلام کو دریا کے کنارے پر ڈال دیا۔ مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے بدن پر کوئی بال نہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے قریب ایک کدو (لوکی) کا درخت اگا دیا، جس کے پتوں کا سایہ بھی حضرت یونس علیہ السلام کے لئے ایک راحت بن گئی اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرما دیا کہ وہ صبح و شام ان کے پاس آ کھڑی ہوتی اور وہ اس کا دودھ پی لیتے تھے۔ اس طرح حضرت یونس علیہ السلام کو اس لغزش پر تنبیہ بھی ہوگئی اور بعد میں ان کی قوم کو بھی پورا حال معلوم ہوگیا

اپنی رائے کا اظہار کریں