اسلام نے بیوہ اور مطلقہ کو دوسرا نکاح کا حکم کیوں دیا ہےاگر آپ نہیں جانتے اس آرٹیکل کو پڑھیں

دوسرا نکاح

کائنات نیوز ! اسلام نے بیوہ اور مطلقہ کا نکاح ان کے نکاح کا مقصد معاشرے کو پاک رکھنا ہے. کیونکہ بیوہ یا مطلقہ ازدواجی زندگی کے دور سے گزر چکی ہوتی ہے اور ان کے نکاح میں تاخیر یا انکار معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے. یہ حکم اس مرد کے لیے بھی ہے جس کی بیوی مر جائے یا وہ طلاق دے دے. یاد رکھیں شادی پر اصرار وہی مرد کرتا ہے جو پاک رہ کر صرف بیوی سے سکون حاصل کرنا چاہے. ورنہ معاشرہ بھرا ہوا ہے ایسے غلیظ لوگوں سے جو شادی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس -4″ بوجھ کو گلے میں ڈالے بنا بھی سب کچھ مل رہا ہوتا ہے.

اللہ تعالٰی نے اجازت دی ہے کہ ایک سے خواہش پوری نہیں ہوتی تو دو شادیاں کرلو. تین کرلو، چار کرلو اور اس میں بیوی کی اجازت بھی شرط نہیں ہاں بیوی کے حقوق پورے کرنا فرض ہے مگر کیا کیا اس اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے کا کہ جو گرل فرینڈز تو دس دس برداشت کر لیتا ہے مگر بیوی ایک سے دو نہیں. اسی طرح بیوہ یا مطلقہ کی شادی پہ ایسے ایسے بےشرم تبصرے اور اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ. ہم گھروں میں کیبل لگوا کر، کھلی آزادی دے کر، کو ایجوکیشن میں پڑھا کر پھر اپنے بچوں سے رابعہ بصری اور جنید بغدادی بننے کی توقع کریں تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں. دو جوان لڑکا لڑکی جب یونیورسٹی کے آزاد اور “روشن خیال” ماحول میں پڑھیں گے تو انکو تعلق بنانے سے کون روکے گا؟ جب گھروں میں دینی تربیت نہ ہو، مائیں سٹار پلس کے ڈراموں اور کپڑوں کی ڈیزائننگ میں مگن رہتی ہوں، اولاد کی سرگرمیوں اور ان کی صحبت سے ناواقف ہوں تو جیسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں وہ بعید نہیں.

مگر ہمیں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پردے کی ضرورت نہیں. اس کا تو یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پھر کپڑوں کی ضرورت بھی نہیں. یہ اللہ کا اپنے محبوب کی امت پہ خاص احسان ہے کہ اس نے ہم میں پچھلی قوموں کے تمام گناہ دیکھ کر بھی ہمیں غرق نہیں کیا. ورنہ بنی اسرائیل کے لوگ تو بندر بھی بنائے گئے اور خنزیر بھی. توبہ کے دروازے بند نہیں اور نہ ہی رب کی رحمت مدھم ہو گئی ہے. جب خدا کی محبت اور ایمان کی روشنی دل میں آجاتی ہے تو یہ “نورٌ علی نورٌ” ہے اب ایسے دل میں بے حیائی داخل نہیں ہو سکتی. ایمان کا نور لینا ہے تو ان گھروں میں جا کر بیٹھ جاؤ جہاں صبح شام اس کا ذکر اور تسبیح و پاکی بیان ہوتی ہے یعنی مسجدیں اور خانقاہیں. توبہ سے شاید دن گزرنے کا انداز بدل جائے. راتوں کی بے چینی سجدوں کے سرور میں بدل جائے. اور جب یہ میڈیا اور معاشرہ تمہاری توبہ کو کھانے لگے تب فیصلہ ہوگا کہ تم اس رب العزت کے غلام ہو یا اپنے نفس کے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں