سورۃ التوبہ کی آخری 2 آیات کا عمل، اس وظیفہ سےاللہ تعالیٰ انسان کی جونیک اور جائز خواہشات ہوں انہیں پورا فرمادیتے ہیں

نیک اور جائز خواہشات

کائنات نیوز ! یہ جو عمل ہے اس عمل سے اللہ کریم انسان کی جو نیک اور جائز خواہشات اور حاجات ہیں۔ اللہ کریم انہیں پورا فرماتاہے۔ اور یہ ایسا وظیفہ ہے کہ جس شخص نے بھی اس عمل کوکیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس عمل کے اندر کامیابی عطاء فرمائی۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی ذات کریم ہے رحیم ہے۔

اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے لفظ “کُن” کے ساتھ تمام کائنا ت کو وجو د بخشا۔ اور اس ذات کا شکر ہے جس نے ہمیں حضور اکرمﷺ کا امتی بناکر بھیجا۔ پھر اللہ کریم نے اپنا لاریب کلام اور بے عیب کلام “قرآن مجید” جیسی کتاب کو عطا فرمایا۔ سورۃ التوبہ کی آخری دو آیا ت ہیں اس میں طاقت کا مضبوط نظام موجود ہے۔ ان آیت میں رزق کے دروازے کھلتے ہیں۔ اور ایسے کھلتے ہیں کہ اللہ کے خزانے اور رحمتوں اور برکتوں کے اوررزق کے بے بہا بارش ہوتی ہے۔ اللہ کریم اس انسان کو جہاں بھر میں عزیز فرما دیتا ہے۔ اس کے اندر اللہ تسخیر فرمادیتے ہیں ۔ اس وظیفے کو کرنے کے بعد انسان جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے۔

اللہ کریم کے کرم اسے کامیابیاں ملتی ہیں۔ امتحان میں پاس ہونا، رزق میں فروانی ، کاروبا ر کا بڑھنا اور غرض دنیا کا کوئی بھی کام ہو۔ یا کوئی بھی مقصد جس پر آپ نہیں پہنچ پاتے ۔تو اس کے لیے سورۃ التوبہ کا وظیفہ کریں۔ انشاءاللہ اس عمل کی بدولت اللہ کریم ہرمسئلے کو دور کریں گے۔ اس وظیفے کو کرنے سے پہلے باوضو ہو جائیں۔ اور سات سات مرتبہ درود شریف پڑھیں۔ اور درود شریف کے درمیان میں سورۃ التوبہ کی آخری دو آیت کو تین سو تینتیس بار پڑھنا ہے۔ جتنی بھی سخت مہم ہو جتنا بھی گھمبیر مسئلہ ہو، سخت پریشانی ہو اور سخت گھبراہٹ ہو، کسی کاروبار کو شروع کرنا چاہتے ہیں، کوئی رشتہ کرنا چاہتے ہیں یا شادی کے خواہش مند ہیں

یا کوئی بھی معاملہ دین و دنیاوی معاملات ہوں، تو انشاءاللہ اس وظیفے کی بدولت تمام مشکلات دور ہوجائیں گی۔ اس کے بعد اپنے لیے ، اپنے والدین کے لیے ، اپنے بچوں کے لیے یا اپنے رب کریم سے جو کچھ بھی دعا مانگیں گے۔ انشاءاللہ عزوجل کی طر ف سے بہت کچھ ملے گا

اے علیؓ کھانے کی ابتدا بھی نمک سے کرو اوراختتام بھی نمک سےکرو، حضرت محمد ﷺ نے حضرت علی کو یہ نصیحت کیوں کی تھی؟

! اے علیؓ کھانے کی ابتدا بھی نمک سے کرو اوراختتام بھی نمک سےکرو، حضرت محمد ﷺ نے حضرت علیؓ کو یہ نصیحت کیوں کی تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کرتے ھوئے فرماتے ہیں: اے علیؓ! کھانے کی ابتدا بھی نمک سے کرو اور اختتام بھی نمک، چونکہ نمک میں ستر بیماریوں کا علاج ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں: 1- پاگل پن، 2-جزام(کوڑھ)، 3-برص، یعنی جلد پر سفیدداغ بن جانا، بلکہ بعض کے تو بال اور پوری جلد بھی سفید ھوجاتی ہے. 4 -گلے میں درد، 5 -دانتوں میں درد6- اور پیٹ میں درد، امام جعفرصادق رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:

جو چاھتا ہےکہ اس کے منہ پر سے کیل اور دانے ختم ھوجائیں اسے چاہیئے کہ کھانا کھاتے وقت پہلے لقمہ پر تھوڑا سا نمک چھڑک لے. حضرت علیؓ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: بتاؤ بھترین ہانڈی (سالن) کیا ہے؟ تو ایک نے کہا: گوشت، دوسرے نے کہا: گھی، تیسرے نے کہا زیتون کاتیل، یہاں تک آپ نے خود فرمایا: نہیں، بہترین غذا نمک ہے. ایک دفعہ ہم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سیر کے لئے باہر نکلے، چنانچہ آپ کا خادم نمک لے جانا بھول گیا، تو ھم سب بغیر کچھ کھائے واپس آگئے. یعنی حضرت اس قدر پابند تھے کے نمک سے ابتدا اور اختتام فرماتے تھے. چونکہ اس سفر میں نمک ہمراہ نہیں تھا، لہذا آپ نے واپس آکر کھانا تناول فرمایا. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں:

جو کوئی بھی کچھ کھانے سے پہلے اور آخر میں تھوڑا سا نمک کھا لیتا ہے تو خداوند عالم اس سے 330 بلاؤں کو دور فرما دیتا ہے. جن میں سے کم ترین جذام ہے. چونکہ اس سفر میں نمک ہمراہ نہیں تھا، لہذا آپ نے واپس آکر کھانا تناول فرمایا. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں: جو کوئی بھی کچھ کھانے سے پہلے اور آخر میں تھوڑا سا نمک کھا لیتا ہے تو خداوند عالم اس سے 330 بلاؤں کو دور فرما دیتا ہے. واللہ اعلم باالصواب

اپنی رائے کا اظہار کریں