جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعد اس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں مزید جانیں

اجر عظیم

کائنات نیوز ! جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعد اس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  صاحب قرآن کو کہا جاۓ گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھو گے

وہی تمہاری منزل ہو گي ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2914 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1464 ) اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلۃ احادیث صحیحۃ میں ( 5 / 281 ) حدیث نمبر ( 2240 ) صحیح کہنے کے بعد یہ کہا ہے :آّپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ” صاحب قرآن ” سے مراد حافظ قرآن ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یؤم القوم اقرؤھم لکتاب اللہ : یعنی لوگوں کی امامت وہ کراۓ جو کتاب اللہ کا سب سے زيادہ حافظ ہو ۔تو جنت کے اندر درجات میں کمی و زیادتی دنیا میں حفظ کے اعتبار سے ہو گی نا کہ جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن جتنا وہ پڑھے گا اسے درجات ملیں گے لھذا اس میں قرآن مجید کے حفظ کی فضيلت ظاہر ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالی کی رضا کے لیے حفظ کیا گیا ہو اور قرآن حفظ کر کے عمل کیا ھو نہ کہ دنیا کے مال اور پیسے روپے کی خاطر وگرنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے

کہ میری امت کے اکثر منافق قرآء ہیںاور امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے حفظ قرآن کی فضیلت میں عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا سے حدیث بیان کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ( جو ‎شخص قرآن مجید کا حا‌فظ ہے اور اسے پڑھتا ہے وہ کرام بررۃ کے ساتھ ہے اور جوشخص قرآن کریم پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں مشکل ہو تواس کے لیے دوگنا اجر ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر( 4937 ) اولاد ماں باپ کے پاس امانت ہوتی ہے اور اس کی تربیت ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ان کے بچے ان کی رعایا ہوتے ہیں اور وہ ان کے ذمہ دار۔لہٰذا ان سے خیرخواہی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ان کی اصلاح وتربیت کرنا ان پر واجب ہے۔اور والدین کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھنی چاہئے کہ اولاد کیلئے محض کھانا پینا اور لباس مہیا کرنا ہی ان کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی دینی واخلاقی تربیت کرنا بھی ان کا فریضہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےیَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُونَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔اور جس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں ۔ جو ارشاد اللہ ان کو فرماتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے وہ اسے بجا لاتے ہیں۔

اپنی رائے کا اظہار کریں