کائنات نیوز! اگر آپ نے پہلا نکاح شرعی طریقہ پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں کیا ہے تو وہ بلا شبہ صحیح ودرست ہوا، اب دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں، یہ دوسرا نکاح شرعاً لغو ہوگا، لیکن اگر آپ اور لڑکی کے والدین، رشتہ دار اور دوست واحباب وغیرہ کو اس نکاح کی اطلاع نہیں ہے اور شرم وبد نامی وغیرہ کی وجہ سے آپ کے گھروالے باضابطہ دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں
تو شرعاً یہ حرام نہیں،البتہ نکاح ثانی میں مہر پہلے سے زیادہ مقرر کیا جائے تو وہ زیادتی بھی لازم ہوگی الاّ یہ کہ نکاحِ ثانی اور مہرِ ثانی کے ہزل ومذاق ہونے پر گواہ موجود ہوں۔ جدد النکاح بزیادة ألف لزمہ ألفان علی الظاہر․ قال الشامي: حاصل عبارة الکافی: تزوجہا فی السر بألف ثم فی العلانیة بألفین ظاہر المنصوص فی الأصل أنہ یلزم الألفان ویکون زیادة فی المہر․․․ وعند الإمام أن الثانی وإن لغا لا یلغو ما فیہ من الزیادة ․․․ وذکر فی الفتح أن ہذا إذا لم یشہدا علی أن الثانی ہزل وإلا فلا خلاف فی اعتبار الأول، فلو ادعی الہزل لم یقبل بلا بینة․(الردّ مع الدر: ۴/ ۲۴۷ کتاب النکاح، مطلب: في أحکام المتعة ط: زکریا) فی القنیة: جدد للحلال نکاحا بمھر یلزم إن جددہ لأجل الزیادة لا احتیاطاً اھ، أي: لو جددہ لأجل الاحتیاط لاتلزمہ الزیادة بلا نزاع کما فی البزازیة
، وینبغي أن یحمل علی ما إذا صدقتہ الزوجة أو أشھد، وإلا فلا یصدق في إرادتہ الاحتیاط کما مر عن الجمھور، أو یحمل علی ما عند اللہ تعالی اھ(ردالمحتار:۴/۲۴۷،۲۴۸)
اپنی رائے کا اظہار کریں