حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کس درخت سے بنائی گئی اور کتنا عرصہ لگا اسے بنانے میں

حضرت نوح علیہ السلام

کائنات نیوز! حضرت نوح علیہ السلام کی قوم جب توحید سے ہٹ کر بتوں کی پوجا کرنے لگی، تو آپؑ نے دُعا کی کہ’’ میرے پروردگار! کسی کافر کو روئے زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تُو نے ان کو چھوڑ دیا، تو یہ تیرے بندوں کو گم راہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا وہ بھی بدکار اور سخت کافر ہی ہو گا۔ اے میرے پروردگار! مجھ کو اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں

مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے اور سب مومن مَردوں اور عورتوں کو معاف کر دے اور ظالموں کے لیے اور زیادہ تباہی بڑھا۔ (سورۂ نوحؑ) حضرت نوح علیہ السلام کی دعا بارگاہِ الہی میں قبول فرما لی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی نازل کی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’اور نوحؑ کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چُکے ہیں، اُن کے سِوا اب اور کوئی ایمان نہیں لائے گا، تو جو کام یہ کر رہے ہیں ،اُن کی وجہ سے غم نہ کھائو۔ اور ایک کَشتی ہمارے حکم سے ہمارے رُوبرو بنائو اور ان کافروں سے متعلق اب کوئی گفتگو ہم سے نہ کرنا، کیوں کہ یہ سب لازمی طور پر غرق کر دیے جائیں گے۔‘‘ (سورۂ ہود 36-37) لکھا گیا ہے کہ’’ بعض عالم دین کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم بھی فرمایا کہ فلاں درخت اُگاؤ، جس سے کَشتی بنائی جائے گی، تو حضرت نوح علیہ السلام نے وہ درخت اُگایا اور ایک سو سال تک اس کا انتظار کیا پھر اس کو کاٹ کر ہموَار کیا۔ اس میں بھی

ایک قول کے مطابق ایک سو سال اور دوسرے قول کے مطابق، چالیس سال کا عرصہ لگ گیا۔‘‘ (واللہ اعلم)۔ محمّد بن اسحاقؒ، حضرت ثوریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لکڑی، ساگوان کی تھی اور دوسرے قول کے مطابق، وہ صنوبر کے درخت کی تھی۔ حضرت ابنِ عبّاسؓ سے مروی ہے کہ اس کشتی کی لمبائی بارہ سو گز اور چوڑائی چھے سو گز تھی۔ ایک اور قول کے مطابق لمبائی دو ہزار گز اور چوڑائی ایک سو گز تھی۔ حضرت ثوریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی کے اندرونی اور بیرونی حصّوں میں تارکول (ڈامر) اچھی طرح سے مَلنے کا حکم ملا تھا اور ہدایت کی گئی تھی ک کشتی کے سامنے کا حصّہ بلندی کو اٹھا ہوا ہو تاکہ وہ پانی کو چیر سکے۔ اس کشتی کی اونچائی تیس گز تھی اور اس میں تین منزلیں تھیں۔ کشتی کے اوپر ایک ڈھکن تھا، جس سے وہ بند کر دی جاتی تھی۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر) اگر ہم آج کے زمانے کے مطابق دیکھیں تو وہ ایک بڑی جدید اور زبردست آبدوز تھی۔

اپنی رائے کا اظہار کریں