دردِسر سے حفاظت رسول کریمﷺنے فرمایا یہ دعا پڑھو،مزید جاننے کیلئے اس آرٹیکل کو پڑھیں

دردِسر سے حفاظت

کائنات نیوز! سنت مطہرہ میں ایسی بہت سی احادیث ہیں جو مسلمان کو مسنون ایسے اذکار اور دعاؤں پر پابندی کی ترغیب دلاتی ہیں جو انسان کو تکالیف، نقصان اور ہر قسم کی منفی سرگرمی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، ان دعاؤں کے عموم میں مختلف قسم کی تمام بیماریاں اور وبائی امراض شامل ہیں، ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص بھی کہے: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [ترجمہ: اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے] جس نے یہ دعا صبح کے وقت تین بار پڑھی تو شام تک اسے کوئی بھی ناگہانی آفت نہیں پہنچے گی ۔”اس حدیث کو ابو داود: (5088) اور ترمذی: (3388) نے روایت کیا ہے اور صحیح بھی قرار دیا ہے، تاہم ترمذی میں اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:” جو شخص بھی یہ کلمات بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [ترجمہ: اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں

جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے] صبح اور روزانہ شام کے وقت کہتا ہے تو کوئی بھی چیز اسے نقصان نہیں پہنچاتی۔”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: “اللہ کے رسول! مجھے رات کو بچھو کے کاٹنے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی” تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تم شام کے وقت کہہ دیتے کہ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ [ترجمہ: میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اس کی تمام تر مخلوقات کے شر سے] تو تمہیں وہ نقصان نہ پہنچاتا) اس حدیث کو مسلم: (2709) نے روایت کیا ہے۔عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ

: ہم ایک شدید اندھیری اور بارش والی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تلاش کرنے کے لیے نکلے کہ آپ ہمیں نماز پڑھا دیں تو ہم نے آپ کو تلاش کر لیا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ملتے ہی کہا: (کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟) تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کہو) تو میں نے کچھ نہ کہا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا: (کہو) میں نے پھر بھی کچھ نہیں کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسری بار فرمایا: (کہو) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول میں کیا کہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم صبح اور شام کے وقت کہا کرو: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور اس کے ساتھ سورت الفلق اور سورت الناس تین تین بار پڑھا کرو، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی۔)

اس حدیث کو ترمذی: (3575) اور ابو داود (5082)نے روایت کیا ہے۔علامہ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:“تمام مخلوقات کے ہر قسم کے شر سے تحفظ اور عافیت پانے کے ساتھ ساتھ پر امن رہنے کے لیے انسان اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ صبح اور شام تین تین بار اللہ تعالی سے مانگےاور کہے: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ [ترجمہ: میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اس کی تمام تر مخلوقات کے شر سے] اس لیے کہ ایسی روایات ثابت ہیں جن میں ان الفاظ کو عافیت کا سبب قرار دیا گیا ہے، اسی طرح صبح اور شام یہ الفاظ بھی پڑھے: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [ترجمہ: اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے]؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ

جو شخص بھی صبح کے وقت تین بار ان الفاظ کو پڑھے تو اس کو شام تک کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچاتی، اور جو شخص شام کے وقت پڑھ لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی۔تو قرآن و سنت سے ثابت یہ تمام اذکار ہر قسم کی برائی، شر اور تکلیف سے تحفظ کا باعث ہیں۔اس لیے ہر مومن مرد اور عورت کو ان اذکار کی مقررہ اوقات میں پابندی کرنی چاہیے، نیز انہیں پڑھتے ہوئے اللہ تعالی پر مکمل اعتماد ہو اور قلبی طور پر مطمئن بھی ہو کہ اللہ تعالی ہی ہر چیز کو قائم رکھے ہوئے ہے، وہی ہر چیز کے بارے میں علم رکھتا ہے، اور ہر چیز پر قادر بھی ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی پروردگار ہے، اسی کے ہاتھ میں نفع و نقصان کا کامل اختیار ہے،

اور وہی ہر چیز کا مالک ہے۔”” فتاوى الشیخ ابن باز ” ( 3 / 454 ، 455 )اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح یا شام کے وقت ان کلمات کی پابندی کیا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اَللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي ص [ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت طلب کرتا ہوں ۔ یا اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین، دنیا، اور اہل خانہ سمیت اپنی املاک کے متعلق بھی معافی اور عافیت کا درخواست گزار ہوں ۔ یا اللہ ! میرے عیب چھپا دے ۔

اور مجھے میرے خدشات و خطرات سے امن عطا فرما ۔ یا اللہ ! میرے آگے ، میرے پیچھے ، میرے دائیں ، میرے بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کے ذریعے سے اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں ۔] اس حدیث کو ابو داود: (5074) اور ابن ماجہ: (3871) نے روایت کیا ہے، اور شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح ابو دواد میں صحیح قرار دیا ہے۔”الشیخ ابو الحسن مبارکپوری رحمہ اللہ اس دعا کی شرح میں کہتے ہیں:“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ یعنی مطلب یہ ہے کہ: دینی امور میں آزمائشوں اور دنیاوی سختیوں سے سلامتی اور تحفظ کا طلب گار ہوں۔ اس کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیماری اور وبا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

تیسرا معنی یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ: اللہ تعالی ان بیماریوں میں مبتلا نہ کرے، اور اگر کر بھی دے تو اس پر صبر کرنے اور اللہ کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرنے کی توفیق دے۔ لفظ ” الْعَافِيَةَ ” عربی زبان میں فعل ” عَافَى” کا مصدر ہےیا اسم ہے، اس کا معنی بیان کرتے ہوئے صاحب القاموس کہتے ہیں کہ: “عافیت: اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے تحفظ کو کہتے ہیں، چنانچہ عربی جملہ: عَافَاهُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الْمَكْرُوْهِ عَفَاءً وَمُعَافَاةً وَعَافِيَةً اس وقت کہا جاتا ہے جب اللہ تعالی کسی بندے کو بیماریوں، بلاؤں اور تکالیف سے بچا لے، اس کا معنی عربی لفظ: “أَعْفَاهُ” جیسا ہے۔”نیز اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ کا مطلب ہے: یا اللہ میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور ان سے در گزر کا مطالبہ کرتا ہوں۔وَالْعَافِيَةَ یعنی عیوب سے پاکی۔” فِي دِينِي وَدُنْيَايَ “

یعنی دینی اور دنیاوی تمام امور میں ” ختم شد” مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ” ( 8 / 139 )سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں عموما یہ الفاظ شامل ہوتے تھے کہ: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ [ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے تیری نعمتوں کے زوال، تیری جانب سے عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔] اس حدیث کو امام مسلم: (2739) نے روایت کیا ہے۔مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:“حدیث میں مذکور: وَتَحَوُّلِ کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کسی دوسری چیز سے جدا ہو جائے ؛ گویا کہ یہاں پر ہمیشہ کی عافیت اللہ تعالی سے مانگی گئی ہے،

اور ہمیشہ کی عافیت کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی بیماری اور تکلیفیں نہ پہنچیں۔” ختم شد” فيض القدير ” ( 2 / 140 )“حدیث میں وَتَحَوُّلِ العَافِيَة کا مطلب یہ ہے کہ: صحت بیماری میں بدل جائے اور دولت غربت سے بدل جائے۔” ختم شد” عون المعبود شرح سنن أبي داود ” ( 4 / 283 )سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَيِّئْ الْأَسْقَامِ [ترجمہ: اے اللہ ! میں برص، پاگل پن ، کوڑھ اور بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔] اس حدیث کو امام احمد: (12592)، ابو داود: (1554) اور نسائی: (5493) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔اس حدیث کی شرح میں علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر بیماریوں سے پناہ نہیں مانگی؛ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ بیماریوں کی تکلیف کم ہوتی ہے لیکن اس بیماری پر صبر کی بدولت ملنے والا اجر بہت زیادہ ہوتا ہے، اور وہ بیماریاں دائمی بھی نہیں ہوتیں بلکہ عارضی ہوتی ہیں، جیسے کہ بخار، سر درد، اور آنکھ درد وغیرہ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائمی بیماریوں سے پناہ مانگی ہے؛ کیونکہ انسان دائمی بیماری سے خود بھی تنگ آ جاتا ہے، اور دوست احباب بھی متنفر سے ہو جاتے ہیں، لوگ بات چیت اور علاج معالجے کے لیے بھی نہیں آتےاور انسان خود اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے۔”

اپنی رائے کا اظہار کریں