فرعون کا قصہ

فرعون کا قصہ

کائنات نیوز! فرعون کا ذکر قرآن میں بنی اسرائیل کے قرآن میں بنی اسرائیل کے قصہ میں آتا ہے فرعون کا تکبر تاریخ میں مشہور ہے موسیٰ ؑ نے فرعون کو اپنی رسالت کی نشانیاں دیکھائیں مگر اس نے ماننے سے انکار کردیا جب بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے آزاد کیا اور جزیرہ نما شہر کی طرف لے گئے تو بالاخر وہ پانی میں ڈوب کر مر گیا اس کا گناہ یہ تھا

اس نے اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آنیوالی نسلوں کیلئے مثال بنادیا فرعون کے غرق ہوجانے کے بعد بھی بنی اسرائیل پر اس کی حیبت اور دبدبا چھایا ہوا تھا لوگوں کو فرعون کی موت شک وشبا ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو خشکی پر پہنچا دیا اور دریا کی موجوں نے اسکو خشکی پر پہنچا دیا تاکہ لوگ اسکو دیکھ کر اسکی موت کا یقین بھی کرلیں اور اسکے انجام سے عبرت بھی حاصل کرلیں فرعون اور اسکی فوجوں کی تباہی اور بربادی فرعون اور آلِ فرعون کے تمرد میں اضافہ ہوتا گیا وہ توحید کے دلائل اور پیغمبرانہ معجزات سے بھی فیض یاب نہ ہوسکے تو ان کی سزا کا وقت آن پہنچا اہل مصر میں سے صرف چند افراد ہی ایمان لائے جن کی تعداد ایک قول کے مطابق صرف تین ہے فرعون کی بیوی اور قوم فرعون کا مومن جس کا واقعہ جس کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے

اور وہ شخص جو موسیٰ ؑ کو فرعونیوں کے فیصلے آگاہ کرنے کیلئے شہر سے دوسرے کنارے سے بھاگا آیا اس نے کہا موسیٰ ؑسردار تیرے قتل کا مشورہ کررہے ہیں پس تو یہاں سے چلا جا مجھے اپنا خیر خواہ مان۔ سورۃ قصص آیت نمبر20 ایک قول کے مطابق فرعون کی قوم یعنی قبطیوں میں سے متعدد افراد ایما ن لے آئے تھے اور جادو گر تو سب کے سب مومن ہوچکے تھے اور بنی اسرائیل پور ی قوم بھی مئومنین میں شامل تھی ۔اس کی تاعید اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے پس موسیٰ ؑ پر ان کی قوم میں سے چند نوجوان آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے او ر اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں انکو تکلیف پہنچائیں اور حقیقت میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا اور بات بھی تھی کہ وہ حد سے گزرنے والا تھا اس کی قوم سے مراد فرعون کی قوم ہے جیسے کلام کے سیاق سے ظاہر ہے اکثر مفسرین کی یہی رائے وہ فرعون کے خوف اپنا ایمان ظاہر نہیں کرسکتے تھے

اگر توحیداور حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت پر ایمان کا اظہار کرتے تو انہیں طرح طرح کا آزمائشوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ۔حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو انہوں نے عرض کیا ہم نے اللہ تعالی ٰ پر ہی توکل کیا ۔اے ہمارے پروردگار ہم کو ان ظالموں کیلئے فتنہ نہ بنا اور ہم کو اپنی رحمت کیساتھ ان کافر لوگوں سے نجات دے سورۃ یونس آیت 84سے 86 انہوں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اسی سے مدد مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس مشکل حالات سے نجات دے دی ۔فرمان الٰہی ہے اور ہم نے انہیں ان مشکل حالات سے نجات دے دی فرمان الٰہی ہے اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کیلئے مصر میں چند مقام مہیا کرو اور تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار کرلو اور نماز کے پابند رہو اور آپ مومنو کو بشارت دیں

سورۃ یونس آیت نمبر 87اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کو وہی کے ذریعے سے حکم دیا کہ اپنی قوم کے افراد کی رہائش فرعونیوں سے الگ کرلیں تاکہ جونہی ہجرت کا حکم ملے سفر کیلئے تیار ہوں اپنے گھروں پر نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو یعنی قصرت سے نمازیں پڑھو ان مصائب اور مشکلات سے نجات کیلئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا طریقہ بھی تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے صبر اور نماز کیساتھ مدد طلب کرو سورۃ بقرہ آیت نمبر 45 رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی پریشانی پیش آتی تو آپ ﷺ نماز میں مشکول ہوجاتے دوسرا مطلب یہ بیا ن کیا گیا ہے کیونکہ وہ اس وقت اپنی عبادت خانو ں میں اجتماعی طور اعلانیہ عبادت نہیں کرسکتے تھے اس لیے انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا پہلا قول قوی معلوم ہوتا ہے تاہم اس سے دوسرے قول کی ترتیب نہیں ہوتی حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون اور اسکی حد سے بڑھتی ہوئی سرکشی دیکھی

تو اپنے رب سے یوں دعا مانگی اے ہمارے رب تونے فرعون کی اور اسکے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مالِ دنیاوی زندگی دیئے اے ہمارے رب کیا اس واسطے دیئے کہ وہ تیری راہ سے گمراہ کردیں اے ہمارے رب ان کے اعمالوں کو نیست ونابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب کو دیکھ لیں حق تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے سو تم ثابت قدم رہو اور ان کی لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو علم نہیں سورہ یونس آیت نمبر 88،89یہ ایک عظیم دعا ہے جو حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ کے دشمن فرعون کے خلاف کی آپ کی اللہ تعالیٰ کی محبت کی بنا پر فرعون پر غصہ تھا کیونکہ اس نے تکبر کرتے ہوئے حق کو قبول کرنے سے انکار کیا اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکا سرکشی اور تکبر کا راستہ اختیار کیا حسی اور مانوی طور پر واضح ہوجانے والے حق اور دو ٹوق دلائل کو قبول کرنے سے انکار کیا

اس موسیٰ ؑ نے فرمایا اے ہمارے رب تونے فرعون اور اس کے سرداروں کو یعنی اسکی قوم قبطیوں کو اور اس کے ہم مذہبوں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مالِ غنیمت دیئے اے ہمارے رب کے وہ تیری راہ سے گمراہ کریں یعنی دنیا کو اہمیت دینے والے اس کو دھوکہ کھا جاتے ہیں ایسے جاہل انکی دنیاوی شان دیکھ کر انہیں حق پر سمجھ لیتے ہیں لیکن یہ مال یہ فاخرانہ لباس یہ خوبصورت سواریاں یہ شاندار محلات یہ دلکش کن مناظرسب کا سب دنیاوی عزمت ہے دینی نہیں اے ہمارے رب ان کے اعمالوں کو نیست ونابود کردے بعض علماء نے اس کا یہ مطلب بیان کیا کہ ان چیزوں کو پتھروں میں تبدیل کردے جبکہ ان کی ظاہری شکل وصورت ویسی ہی رہے ۔ اور ان کے دلوں کو سخت کردے تاکہ یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب کو دیکھ لیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بددعا قبول کرلی جیسے حضرت نوح ؑ کی بددعا ان کی قوم کے بارے قبول فرمائی تھی ۔

جب نوح ؑ نے کہا اے میرے پالنے والے تو روحِ زمین کسی کافر کو رہنے والا نہ چھوڑ اگر تو انہیں چھوڑے گا تو یقیناً تیرے بندوں اور بھی گمراہ کردیں گے اور یہ فاجر اور ڈھیٹ کافر ہی کو جنم دیں گے سورۃ نوح آیت نمبر 26،27حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون اور اس کے درباریوں کیخلاف دعا کی اور حضرت ہارون ؑ نے آمین کہی اسی لیے وہ بھی دعا کرنے والوں میں شامل ہوئے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کی گئی سو تم ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو علم نہیں۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی گزرے ہوئے واقعات سے عبرت حاصل کرنے اور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں