حضور ﷺ نے فر ما یا ۔ کو ئلے سے دانت نہ صاف کیا کرو

کو ئلے سے دانت

کائنات نیوز! آج جو بھی باتیں آپ کو بتانے کے لیے جا رہے ہیں ان باتوں کو بہت ہی توجہ کے ساتھ سنیے گا اور ان پر عمل بھی کیجئے گا کیونکہ ان باتوں سے آپ کو بہت ہی زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔ جو لوگ بھی اس پر عمل کر یں گے اس کا ثواب بھی ہو گا تو بات کر رہے تھے کہ نبی ﷺ کی زندگی کے اصولوںکی تو نبی ﷺ نے فر ما یا کہ فجر اور عشراق اور عصر مغرب اور مغرب اور عشاء

کے دوران سونے سے بعض رہا کر و اس فرمان میں بے شمار طبی حکمتیں پوشیدہ ہیں مثلاً آج میڈیکل سائنس نے بتا یا ہے۔ کہ فجر اور عصر کے دوران آکسیجن کی مقدار سب سے زیادہ ہو تی ہے ہم اگر اس وقت سو جا ئیں تو ہمیں اس آکسیجن سے محروم ہو جا تے ہیں اور جو ہماری طبیعت میں بوجھل پن آ جا تا ہے ہم آہستہ آہستہ چڑ چڑے اور بےزار ہو جا تے ہیں عصر سے مغرب اور مغرب سے عشاء کے درمیان بھی آکسیجن کم سے کم تر ہو تی چلی جا تی ہے ہم اگر اس وقت بھی سو جا ئیں تو ہمارا جسم آکسیجن کی کمی کا شکار ہو جا تا ہے اور ہم دس محلق بیماریوں میں مبتلا ہو جا تے ہیں دمہ بھی ان دس محلق بیماریوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اب یہ اوقات جاگ کر گزاریں آپ پوری زندگی صحت مند رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے، جس کی ہرجھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک

میں حضرت عیسیٰؑ کا حلمحضرت موسیٰؑ کا جوش اور حضرت ایوب کا صبر پایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے بستیوں اور بیابانوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا، مخالفین کی سنگ زنی وسختیاں سہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح وطن چھوڑا اور ہجرت کی مگر پھر بھی دنیا انسانیت کو امن و محبت، رحمت اور سلامتی کا پیغام دیا۔ حضرت سلیمانؑ کی طرح اس دنیا میں حکمت کی طرح ڈالی غرض وہ تمام خوبیاں، اوصاف حمیدہ جو پہلے نبیوں میں پائی جاتی تھیں۔ وہ سب بدرجہ کمال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں موجود تھیں اسلام ایک ابدی مذہب اور سرمدی اصول ہے۔ امن و سلامتی کا ذریعہ اور صلح و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ قبل از اسلام دنیا کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں توحید کی جگہ شرک خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم واستبداد نے لے لی تھی۔ عورت کی معاشرے میں کوئی تکریم نہیں تھی

۔ بیٹی کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جنگ شروع ہوجاتی تووہ جنگ کئی سالوں تک جاری رہتی۔ شراب نوشی، جوئے بازی اور اوہام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ انسانیت سسک رہی تھی، بلک رہی تھی اور کسی ایسے مسیحا کا انتظار کر رہی تھی جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سمیٹ سکے ان جاہلانہ رسومات، خود ساختہ مذہبی، سماجی بندشوں، تہذیبی اور اخلاقی تنزلی، فتنہ و فساد، تخریب کاری، خرافات کا خاتمہ کر سک

اپنی رائے کا اظہار کریں