جمعہ کے روز یہ کام ہرگز مت کریں،پیارے نبی کریم ؐ کافرمان ہے کہ جس نےجمعہ کے روز یہ کام کیا اس نے اللہ پاک کو ناراض کیا

جمعہ کے روز

کائنات نیوز ! جس نے بروزِجُمُعہ روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور مِسکین کو کھانا کھلایا اور جنازے کے ہمراہ چلا تو اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے۔ (ایضاًص۳۹۴حدیث۳۸۶۵) حدیثِ پاک کے اس حصّے ’’ اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے ‘‘ سے مراد یا تو اُسے نیکی ہی کی توفیق ملے گی یا گناہ صادر ہوئے تو ایسی توبہ کی توفیق مل جا ئے گی جو اس کے گناہوں کو مٹا دے گی۔

حضرت سَیِّدُنا عبد اللّٰہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بَہُت کم جُمُعہ کا روزہ ترک فرماتے تھے۔ جس طرح عاشوراکے روزے کے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنا ہے اِسی طرح جُمُعہ میں بھی کرنا ہے ، کیوں کہ خصو صیت کے ساتھ تنہا جُمُعہ (اس مسئلے کا خلاصہ آگے آرہا ہے) یا صِرفہفتے کا روزہ رکھنا مکروہِ تَنزِیہی (یعنی ناپسندید ہ ) ہے۔ہاں اگر کسی مخصوص تاریخ کو جُمُعہ یا ہفتہ آگیا توتنہا جُمُعہ یا ہفتے کا روزہ رکھنے میں کراہت نہیں ۔مَثَلاً 15شَعبا نُ الْمُعظَّم، 27 رَجَبُ الْمُرجَّب وغیرہ۔ فَضل ‘‘ کے تین حُرُوف کی نسبت سے تنہا جمعہ کا روزہ رکھنے کی ممانعت پر 3 فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شبِ جُمُعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو اور نہ ہی یومِ جُمُعہ کو دیگر

دنوں میں روزے کے ساتھ خاص کرو مگر یہ کہ تم ایسے روزے میں ہو جو تمہیں رکھنا ہو۔ (مُسلِم ص۵۷۶حدیث۱۱۴۴) مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر ’’ شبِ جمعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو۔‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جمعہ کی رات میں عبادت کرنا منع نہیں ، بلکہ اور راتوں میں بالکل عبادت نہ کرنا مناسب نہیں کہ یہ غفلت کی دلیل ہے چونکہ جمعہ کی رات ہی زیادہ عظمت والی ہے ، اندیشہ تھا کہ لوگ اس کو نفلی عبادتوں سے خاص کرلیں گے اس لیے اسی رات کا نام لیا گیا۔ {۲} تم میں سے کوئی ہرگز جُمُعہ کاروزہ نہ رکھے مگر یہ کہ اس کے پہلے یا بعد میں ایک دن ملا لے۔ (بُخارِی ج۱ص۶۵۳حدیث۱۹۸۵) {۳} جُمُعہ کا دِن تمہارے لئے عید ہے اِس دن روزہ مت رکھو مگر یہ

کہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھو۔ (التَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۲ص۸۱حدیث۱۱) احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تنہا جُمُعہ کا روزہ نہ رکھنا چاہئے مگر یہ ممانعت صرف اُسی صورت میں ہے جبکہ خصوصیت کے ساتھ جمعہ ہی کا روزہ رکھا جا ئے اگر خصوصیَّت نہ ہو مَثَلاً جمعہ کے روز چھٹی تھی اِس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزہ رکھ لیا تو کراہت نہیں ۔ مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر فرماتے ہیں : مَثَلاً کوئی شخص ہر گیارہویں یا بارہویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے اس دن جمعہ آجا ئے تو رکھ لے، اب خلافِ اولیٰ بھی نہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں