کسی لڑکی کے شوہر نے اچانک داڑھی رکھ لی پڑوسن نے عورت سے پوچھا یکا یک تبدیلی کیسےآئی تو اس نے کیا کہا جانیں

عورت

کائنات نیوز ! مستنصر حسین تارڑ کا کہنا ’’کچھ لوگوں کو ’کیسے ہو‘ نہیں بلکہ ’کیوں ہو‘ کہنے کو دل کرتا ہے، واقعی کچھ لوگ تو ایسے کہ بس نہ پوچھیں، جیسے لڑکی نے لڑکے سے جب کہا ’’تم صرف دو بار مجھ سے ملے، ٹھیک سے مجھے جانتے بھی نہیں مگر مجھے پرپوز کردیا کیوں؟ تو لڑکا بولا ’’اس لیے کہ میں اسی بینک میں ملازم ہوں، جس میں تمہارے باپ کا اکاؤنٹ ہے‘‘ جیسے بیوی نے جب شوہر سے کہا ’’دیکھو نا سامنے والے 50انچ کا ٹی وی لے آئے

اور ہمارے پاس وہی 18انچ کا پرانا ٹی وی‘‘ تو شوہر بولا ’’جانو تم بھی بڑی بھولی ہو، بھلا جس گھر میں تم جیسی خوبصورت بیوی ہو وہاں کون بے وقوف اپنا وقت ٹی وی دیکھنے میں برباد کرے گا‘‘یہ سن کر بیوی نے شرماتے ہوئے کہا ’’آپ بھی ناں، بیٹھیے میں ابھی آپ کیلئے چائے بنا کر لاتی ہوں‘‘ لیکن ہم نے دیکھا کبھی کبھار ایسے شانے (سیانے) منہ کی کھائیں، جیسے ایک شانا اونچی آواز میں گانا گاتے، رقص کرتے دفتر میں داخل ہوا، سامنے بیٹھے سینئر کو ایک بڑی سی گالی دی اور اپنی میز پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا، اتنے میں دفتر کا دروازہ کھلا، اس شانے کا دوست اندر داخل ہو کر بولا ’’یار میں مذاق کر رہا تھا، تمہاری کوئی لاٹری شاٹری نہیں نکلی‘‘۔ایک روز میں نے جب باتوں باتوں میں شیخو سے کہا، یوں لگے تم اپنے علاوہ سب کو حقیر سمجھتے ہو، بولا، نہ نہ۔ ہم تو یوسفی صاحب کے مرید، وہ کہہ گئے، میں نے تو عرصے سے یہ اصول بنا لیا ۔

کہ کسی کو حقیر نہیں سمجھنا کیونکہ جسے بھی حقیر سمجھا وہ فوراً ترقی کر گیا، یہ کہہ کر شیخو لمحہ بھر کیلئے رکا، پھر بولا لیکن تمہاری بات الگ، تمہاری حرکتیں ایسی کہ و ہ بیوی یاد آئے، جس کے شوہر نے داڑھی رکھ لی، پانچ وقت کا نماز ی ہو گیا، سہیلی نے اس کایا پلٹ تبدیلی کی وجہ پوچھی تو بولی۔کمینہ یہاں منہ کالا کر کے اب حوروں کے چکر میں ہے، میں نے کہا ’’قبلہ آپ بھی اس بیوی کی طرح مکار جس سے اس کے شوہر نے تنگ آ کر کہا، میرے رشتے داروں میں کوئی ہے جو تمہیں پسند ہو‘‘، بیوی بولی ’’ارے بدھو، تمہیں کس نے کہہ دیا کہ مجھے تمہارے رشتے دار پسند نہیں، میں تمہاری ساس کو بہت پسند کرتی ہوں بلکہ اسے اپنی ماں سمجھتی ہوں‘‘۔کہا جائے

اگر ٹانگیں لمبی ہوں تو بے شک کٹوا لیں مگر دوسروں کے کام میں نہ اڑائیں، کہا یہ بھی جائے، کچھ لوگوں کو بیمار ہونے کیلئے کسی مرض کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ دوسروں کی خوشیاں دیکھ کر بھی بیمار ہو جاتے ہیں، کہا یہ بھی جائے، وہاں مت جاؤ جہاں لوگ تمہیں برداشت کرتے ہیں، وہاں جاؤ جہاں لوگ تمہارا انتظار کرتے ہیں۔ بشکریہ نامور کالم نگار ارشاد بھٹی ۔

اپنی رائے کا اظہار کریں