رزق کے لغوی معنی ’’ عطا ‘‘ کے ہیں خواہ دنیاوی عطا ہو یا اخروی۔ عربی زبان میں رزق اللہ تعالیٰ کی ہرعطاکردہ چیزکوکہاجاتاہے۔مال، علم،طاقت، وقت، اناج سب نعمتیں رزق میں شامل ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے۔ رزق کے ایک معنی نصیب بھی ہیں۔جو غذا پیٹ میں جائے اس کو بھی رزق کہتے ہیں۔دینی اصطلاح میں جائز ذرائع سے روزی کمانا رزقِ حلال کہلاتا ہے ۔نا جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا مال دین کی نظر میںحرام ہے ۔
ہمارا پیارا دین ہمیں یہ تاکید فرماتا ہے کہ تمہارا کھانا پینا نہ صرف ظاہری طور پر پاک و صاف ہو بلکہ باطنی طور پر بھی طیب و حلال ہو ۔رزق اللہ تعالٰی کی ایسی نعمت ہے، جس کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالٰی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشادہے :” إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ’’ اللہ تعالٰی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘ (الذاریات:58) اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو کشادہ اور وسیع رزق عطا کرتا ہے، اور بعض لوگوں کے رزق میں تنگی فرما دیتا ہے۔ایک منظم ضابطے کے مطابق اللہ تعالٰی تمام مخلوقات کو اپنے وقت پر رزق پہنچاتا ہے، چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والے جان دار ہوں، یا ہوا میں اْڑنے والے پرندے ہوں۔ نہ سمندر کی تاریکیوں میں بسنے والے جان دار اللہ تعالٰی کی نگاہ سے اوجھل ہیں، اور نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والوں کو اللہ تعالٰی بھولتا ہے ۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے، : ’’ ۞ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ . اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے، جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔‘‘ (ھود:06)ہم لوگ رزق صرف کھانے کی چیزوں کو کہتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے،
بل کہ رزق اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہر نعمت کو کہتے ہیںچاہے وہ صحت ہو، علم ہو، اخلاق ہو، عمل ہو، نیک بیوی اور اولاد ہو، مال ہو، دلی اطمینان ہو، یا پھر امن کی نعمت ہو۔ اللہ تعالٰی کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر نعمت پر رزق کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ’’ إِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو، تو اْنہیں شمار نہیں کرسکتے۔‘‘ (النحل :18 )۔ یہ اللہ تعالٰی کی حکمت ہے، کہ رزق کی تقسیم میں لوگ مختلف ہیں۔قرآن مجید اور روزی کی کثرت :قرآ ن مجید نے چند امور ایسے ذکر کئے ہیں جو بذات خود انسانی تربیت کے لیے تعمیر ی درس کی حیثیت رکھتے ہیں ،ایک مقام پر ارشاد فر ماتاہے : لئن شکرتم لاز یدنکماگر تم نے نعمتوں کاشکر ادا کیا( انہیں اپنے صحیح مصرف میں خرچ کیا) تو تمہیں زیادہ نعمتیں عطاکروں گا ۔( ابرہیم :07)ایک دوسرے مقام پر لوگوں کوتلاش وحصول روزی کی دعوت دیتے ہوئے فرماتاہے :ہُوَ الَّذی جَعَلَ لَکُمُ الْاٴَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فی مَناکِبِہا وَ کُلُوا مِنْ رِزْقِہخدا تو وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے خاضع اور خاشع بنادیاہے تاکہ تم اس کی پشت پر چلو پھر و
اوراس کے رزق سے کھا ؤ پیو۔ ( ملک :15)ایک اورمقام پر تقویٰ اورپر ہیز گاری کووسعت رز ق کامعیار بتایا ہے ،ارشاد ہوتاہے :وَ لَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْقُری آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَیْہِمْ بَرَکاتٍ مِنَ السَّماء ِ وَ الْاٴَرْضِیعنی اگرروئے زمین کے لوگ ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کرلیں توہم آسمان و زمین کی برکتیں ان کے لیے کھول دیں۔ ( اعراف / 96) قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت كے دن تک کی ہر چیز کو اللہ تعالی نے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہےاللہ تعالی نے جب سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا تو اسے حکم دیا:اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدلکھو، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے.(ترمذی: 2155 اور 3319، ابو داؤد: 4700، مسند احمد: 5/317 بالفاظ مختلفة)اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدتمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گ.و.ش.ت رہتا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔
اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے.(صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643) بعض کو وہ اپنی حکمتِ بالغہ کی وجہ سے زیادہ اور بعض کو کم دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ اور اللہ تعالٰی نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے۔‘‘ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ”(النحل: 71)’’دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔‘أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ”‘ (الزخرف : 32)۔کیا آپ کے رب کی رحمت کویہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانئی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہےاور ایک دوسرے سے بلند کیاہے
تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کرلے۔جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے۔اِس حقیقت کو سمجھنے کے بعد بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں، نہ کسی سے حسد ہوتا، نہ دشمنی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، نہ اپنے آپ کو حد سے زیادہ مشقت میں مبتلا کرنا پڑتا ہے، اور نہ رزق کو تلاش کرنے کے لیے غلط راستوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔یہ بات توہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیئے کہ کسی کے رزق کی وسعت کبھی انسان کوروزی کی وسعت کے ذریعے آزماتاہے اوربے انتہامال اس کے اختیار میں دے دیتا ہے اورکبھی معیشت کی تنگی کی وجہ سے اس کے صبراستقامت اور پامردی کاامتحان لیناچاہتا ہے اوراس سے ان صفات کو پروان چڑھاتاہے۔ کبھی تو ایسا ہوتاہے کہ مال و دولت کی فراوانی صاحبان مال کے لیے وبال جان بن جاتی ہےاوران سے ہرقسم کاسکھ اور چین چھین لیتی ہے . چنانچہ سور ہ ٴ توبہ کی ۵۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتاہے :فَلا تُعْجِبْکَ اٴَمْوالُہُمْ وَ لا اٴَوْلادُھمْ إِنَّما یُریدُ اللَّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ تَزْھقَ اٴَنْفُسُہُمْ وَ ھمْ کافِرُونَان لوگوں کے مال و دولت اوراولاد کی فراوانی تجھے حیران نہ کردے . خداتو یہی چاہتاہے کہ انھیں اس ذریعے سے دنیا وی زندگی میں عذاب دے اوروہ کفر کی حالت میں مریں۔سورہ ٴ موٴ منون کی آیات.56/55 میں فرمایا گیا ہے :یَحْسَبُونَ اٴَنَّما نُمِدُّھمْ بِہِ مِنْ مالٍ وَ بَنینَ ،نُسارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْراتِ بَلْ لا یَشْعُرُونَکیاوہ گمان کرتے ہیں کہ ہم نے جوا نہیں مال و اولاد عطاکی ہے
اس لیے ہے کہ ان پراچھائیوں کے درواز ے کھول دیئے ہیں ،ایسانہیں ہے،وہ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔کائنات کے مالک و خالق اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ دین میں جہاں اخروی معاملات میں رشد و ہدایت کار فرما ہے،وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے۔ جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کو سرفراز و سربلند کرنا ہے’ اسی طرح یہ دین اللہ تعالٰی نے اس لیے بھی نازل فرمایا کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللی مالک الملک نے ساری انسانیت کیلیے اسوہ حسنہ قرار دیا’ وہ سب سے زیادہ جو دعا اللہ تعالٰی سے کرتے’ اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کا سوال ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے: امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ دعا (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) تھی‘‘صحیح البخاری 191/11کسب معاش کے معاملے میں اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو حیرانی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے نہیں چھوڑا’ بلکہ کتاب و سنت میں رزق کے حصول کے اسباب کو خوب وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے’ اگر انسانیت ان اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر مضبوتی سے تھام لے اور صحیح انداز میں ان سے استفادہ کرے تو اللہ مالک الملک جو بہت زیادہ رزق عطا فرمانے والے اور بہت زیادہ قوت والے ہیں’ لوگوں کیلیے ہر جانب سے رزق کے دروازے کھول دیں۔ آسمان سے ان پر خیروبرکات نازل فرما دیں اور زمین سے ان کیلیے گوناگوں اور بیش بہا نعمتیں اگلوائیں۔ قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے اعمال کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، جو رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا باعث ہیں،ہم درج ذیل سطور میں مختصراً کچھ اصول پیش کرتے ہیں ، جن کی بجا آوری پر الله تعالیٰ کیطرف سے رزق میں برکت وفراوانی کا وعدہ ہے ۔یقینا ہم رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں،
مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جد وجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کرلیتے ہیں۔ اگر ہم دنیاوی جد وجہد کے ساتھ‘ اِن اسباب کو بھی اختیار کرلیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ ، جو ہر شخص کی خواہش ہے ۔پہلی چیز :بہترین رزق دینے والے سے رزق مانگو۱۔ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَاور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے”(المائدہ:114)۲۔ وَإِذَا قُلْتَ: اللهُمَّ ارْزُقْنِي قَالَ اللهُ: قَدْ فَعَلْتُنبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب تم کہو گے:اللهُمَّ ارْزُقْنِيتو اللہ کہے گا:میں نے رزق دینے کا فیصلہ کردیا۔(شعب الایمان:610، السلسلۃ الصحیحۃ:3336)دوسری چیز:رزقکے حصول کے لیے اللہ سےاس کا فضل مانگنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْبُرْجُمِيُّ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: ضَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَزْوَاجِهِ يَبْتَغِي عِنْدَهُنَّ طَعَامًا، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ، فَقَالَ: «اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ؛ فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَ» ، فَأُهْدِيَتْ إِلَيْهِ شَاةٌ مَصْلِيَّةٌ، فَقَالَ: «هَذِهِ مِنْ فَضْلِ اللهِ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ»معجم الكبيرللطبراني:10379عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مہمان آیا، آپ ﷺ نے کھانا لانے کے لیے (ایک آدمی کو) اپنی ازواج کے پاس بھیجا لیکن ان میں سے کسی ایک کے پاس بھی کھانا نہ ملا۔ تو آپ ﷺ نے دعا کی:اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ،فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَاے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں،بےشک تیرے سوا اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔چنانچہ آپ ﷺ کے پاس بھنی ہوئی بکری کا تحفہ لایا گیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے اور ہم رحمت کا انتظار کررہے ہیں۔رزق بھی لکھا ہوا ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی. ہاں البتہ طلبِ رزق كے جو اسباب انسان اختیار کرتا ہے ان میں سے اک سعی وکوشش بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُوه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے.(سورۃ الملک: 15) تیسری چیز :رزق کے حصول کے لیے استغفار کرنا:(اللّہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنا):جن اسباب کے ذریعے اللہ تعالٰی سے رزق طلب کیاجاتا ہے’
ان میں ایک اہم سبب اللہ تعالٰی کے حضور استغفار و توبہ کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا۔ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا۔ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارا ”پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا۔ (سورۂ نوح:10-12)۔امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ استغفار کے متعلق فرماتے ہیں:’’استغفار قول و فعل دونوں سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: ’استَغفِروا رَبَّکم اِنَّہ کَانَ غَفَّارََا‘ (تم اپنے رب سے گناہوںکی معافی طلب کرو’ وہ گناہوں کو بہت زیادہ معاف کرنے والے ہیں)اس ارشاد میں صرف زبان ہی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا
حکم نہیں دیا گیا بلکہ زبان اور عمل دونوں کے ساتھ معافی طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔عمل کے بغیر فقط زبان سے گناہوں کی معافی طلب کرنا بہت بڑے جھوٹوں کا شیوہ ہے۔(المفردات فی غریب القران’ مادہ ’’توب‘‘ ص 362)۔امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چار اشخاص آئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی مشکل بیان کی’ ایک نے قحط سالی کی’ دوسرے نے تنگ دستی کی’ تیسرے نے اولاد نہ ہونے کی اور چوتھے نے اپنے باغ کی خشک سالی کی شکایت کی۔انہوں نے چاروں اشخاص کو اللہ تعالٰی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کی تلقین کی۔ امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن صبیح سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے رو برو قحط سالی کی شکایت کی’ تو انہوں نے اس سے فرمایا: اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ دوسرے شخص نے غربت و افلاس کی شکایت کی’ تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔
‘تیسرے شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: ’’اللہ تعالٰٰی سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بیٹا عطا فرما دیں۔‘‘ آپ نے اس کو جواب میں تلقین کی: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کرو۔‘‘چوتھے شخص نے ان کے سامنے اپنے باغ کی خشک سالی کا شکوہ کیا تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی التجا کرو۔‘‘(ابن صبیح کہتے ہیں) ہم نے اس سے کہا اور ایک دوسری روایت میں ہےکہ ربیع بن صبیح نے ان سے کہا: آپ کے پاس چار اشخاص الگ الگ شکایت لے کر آئے اور آپ نے ان سب کو ایک ہی بات کا حکم دیا کہ ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کرو۔‘‘(تفسیر الخازن 154/7′ روح المعانی 73/29) امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا: میں نے انہیں اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں بتلائی (میں نے تو انہیں اس بات کا حکم دیا ہے جو بات ربِ رحیم و کریم نے سورہ نوح میں بیان فرمائی ہے) سورہ نوح میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:’’ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًۭا ‘‘’’اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو’ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔
آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائے گا اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گااور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔اگر تم اللہ تعالٰی کے حضور توبہ کرو’ ان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور ان کی اطاعت کرو تو وہ تم پر رزق کی فراوانی فرما دیں گے’ آسمان سے بارانِ رحمت نازل فرمائیں گے’ زمین سے خیر و برکت اگلوائیں گے’ زمین سےکھیتی کو اگائیں گے’ جانوروں کا دودھ مہیا فرمائیں گے’ تمہیں اموال اور اولاد عطا فرمائیں گے’ قسم قسم کے میوہ جات والے باغات عطا فرمائے گے اور ان باغوں کے درمیان نہریں جاری کریں گے۔
Leave a Comment