زمین کی تخلیق، کیسے اور کیوں ؟

کیوں ؟

زمین سورج سے دور جاتے ہوئےتیسرے نمبر کا سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں، ہمارا تمام علم، ہماری تہذیب، تمدن، مذہب، سائنس اور رہن سہن سبھی اس چھوٹے سے پتھریلے سیارے کی وجہ سے ہے، اگر زمین نہ ہوتی تو ہم نہ ہوتے، ہم نہ ہوتےتو نہ ہمارے ہونے کا سوال پوچھا جاتا نا ہی ہم خود کو اہم اور اشرف

المخلوقات سمجھتے، زمین کی پیدائش کیسے ہوئی؟اس سے متعلق بہت سے اساطیری قصے و کہانیاں زمانہ قدیم ہی سے موجود ہیں، ہر زمانے کے انسان نے اپنے زمانے اور سوچ کے مطابق مختلف کہانیاں گھڑیں جن میں اس نے زمین و آسمان کی پیدائش کیسے ہوئی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ مگر آج ہم سائنس کے ذریعے سے حاصل کیے گئے علم کے ذریعے زمین کے وجود میں آنے کے سوال کا جواب انتہائی احسن طریقے سے دے سکتے ہیں۔جب زمین

کے وجود کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ وسیع و عریض سیارہ کیسے وجود میں آیا کیسے بنا ؟ اس سوال کا جواب وقت کے لحاظ سے انتہائی طویل ہے، کیونکہ زمین کی پیدائش کے لئے بنیادی محرکات زمین کی پیدائش سے کہیں پہلے وجود میں آ چکے تھے، بلکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے وجود کے لئے محرک اول خود بگ بینگ تھا۔بگ بینگ کے بعد جب کائنات پیدا ہوئی تو اس وقت 99 فیصد سے بھی زیادہ مقدار

ہائڈروجن گیس کی تھی، باقی 1 فیصد سے بھی کم مقدار میں ابتدائی طور پر ہیلئیم اور لیتھئیم بھی وجود میں آئی تھیں۔ ہماری زمین غالب طور پر لوہے، آکسیجن، فاسفورس، کاربن، سلیکان سے مل کر بنی ہے۔ بگ بینگ کے وقت لوہا اور آکیسجن توموجود ہی نہیں تھے، پھر یہ عناصر زمین میں کیسے موجود ہیں؟اس کا جواب ہمیں ستاروں کے اندر ہونے والے نیوکلیائی فیوژن کے عمل اور ان کی موت میں ملتا ہے، بہت سے ستارے جو سورج سے تقریباً تین گنا بڑے

ہوتے ہیں وہ اپنا ہائڈروجن ایندھن انتہائی تیزی سے استعمال کرتے ہوئے بھاری عناصر بناتے ہیں اور آخر میں ایک دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں، اور جتنے بھی بھاری عناصر وہ اپنی موت کے دوران بناتے ہیں ان کو کہکشاں میں گیسوں کی صورت میں پھیلا دیتے ہیں۔ ہائڈروجن، ہیلئیم اور لیتھئیم کے علاوہ تمام ہی عناصر اس عمل کے دوران بنتے ہیں۔اس عمل کے ہی مطابق زمین کے وجود سے کہیں پہلے کچھ ستارے تھے، جو اپنا نیوکلائی فیوژن کا تابکار عمل کرتے

رہے اور آخرکار اپنی موت کے وقت لوہا، آکسیجن اور دوسرے عناصر ملکی وے کہکشاں میں پھیلا گئے، جو عناصر ان قدیم ستاروں کی موت پر بنے وہ گیس کے بڑے بڑے بادلوں کی شکل میں ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش تھے، ہم نہیں جانتے کہ یہ گیسوں کا بادل کتنا عرصہ کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش رہا، مگر آج سے تقریبا 4.7 ارب سال پہلے اس گیسوں کے بادل کے قریب ہی میں کسی سوپر نووا ستارے کے پھٹنے سے ایک ایسا دھماکا پیدا

ہوا جس سے اس گیسوں کے بادل میں ازتزلال کی لہریں دوڑ گئیں اور انہی لہروں کے باعث یہ گیسوں کا بادل اپنی ہی ثقالت کے باعث سمٹنے لگا، اس وقت اس گیسوں کے بادل میں گیس نے آپس میں مل کر کھربوں کی تعداد میں شہابیوں کو جنم دیا۔یہ شہابیے اس گیسوں کے بادل میں ہائڈروجن اور دوسری ہلکی گیسوں کے علاوہ پائے جانے والے عناصر کے ملنے سے بنے، مگر اس گیسوں کے بادل کے مرکز پر موجود گیس اندر کی جانب گرنے سے سورج کی پیدائش ہوئی،

مگر دوسرے ایسے مراکز جہاں پر گیس گری وہاں ہمارے بڑے گیسی سیاروں یعنی، مشتری، زحل اور نیپچون کا جنم ہوا، یہ ہمارے نظام شمسی کا بیرونی حصہ ہے۔مگر سورج اپنی پیدائش کے دوران تابکاری خارج کر کے اپنے قریب میں مادے کی صفائی کرنے لگا، یعنی قریب میں پائی جانے والی ہائڈروجن گیس یا تو سورج نے خود جذب کر لی یا پھر اس کو اپنے ابتدائی دنوں میں انتہائی قوی تابکاری خارج کرنے کے دور پرے دھکیل دیا جس کے باعث یہ گیس جا

کر مشتری کے مدار تک پہنچ گئی ۔ مگر دوسری جانب پتھریلے شہابیے جو نظام شمسی کی پیدائش کے عمل کے دوران پیدا ہوئے تھے سورج سے خارج ہونے والی تابکاری کے باوجود سورج سے قریب یعنی اندرونی نظام شمسی میں موجود رہے، اس وقت اندرونی نظام شمسی یعنی ہمارے نظام شمسی کا وہ حصہ جو سورج سے سیارے مریخ تک ہے سورج کے گرد محو گردش کھربوں شہابیوں کی آماج گاہ تھی، یہ شہابیے اپنے اپنے مداروں میں سورج کے گرد گھوم رہے

تھے۔اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے تھے، یہ نومولود نظام شمسی ہمارے نظام کے مقابلے میں انتہائی غیر مستحکم تھا، کوئی بھی شہابیہ اپنی اصل حالت میں رہ پانا ممکن نہ تھا، اسی دوران کشش ثقل کے باعث مختلف حصوں میں بڑے شہابیوں نے چھوٹے شہابیوں کو کشش ثقل کے باعث کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیا۔ اسی باعث نظام شمسی میں چھوٹے چھوٹے سیاروں جن کو پروٹو پلینٹ کہا جاتا ہے کا جنم ہوا، اس دوران ہزاروں کی تعداد میں

سیارے پیدا ہوئے مگر یہ ایک دوسرے کے مداروں میں مداخلت کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے، ساتھ ہی یہ شہابیوں کو بھی اپنی طرف کھینچتے رہتے تھے۔اس وقت میں ہر سیکنڈ میں نظام شمسی میں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں اجسام ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، شہابیے شہابیوں سے ٹکراتے، سیارے سیاروں سے، شہابیے سیاروں سے، اور پھر چھوٹے سیارے بڑے سیاروں سے ٹکرا کر ان میں زم ہو جاتے، اس وقت نظام شمسی میں

 

Leave a Comment