حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھوک،ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں فاقہ تھا

حضرت علی رضی اللہ عنہ

ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں فاقہ تھا ۔ کھانے کو کوئی چیز میسر نہیں تھی ، آپ نے اس موقعہ پر ایک رات کسی کے باغ کو پانی پینچ کر ڈالنے کی مز دوری کی ، اور اس کام پر صبح کو باغ والے نے کچھ ” جو ” دۓ ،آپ اس کوئی کر آئے اور گھر میں اس جو کے تین حصے بنا کر ایک حصہ چکی میں پسوایا اور اس سے خزیرہ نام کا ایک کھانا پکایا گیااور کھانےکے لئے بیٹھے تو ایک مسکین آیا اور دستک دی کہ اللہ کے نام کچھ دے دو ۔

آپ نے اور گھر کے افراد نے وہ سارا کھانا فقیر کو دیدیا پھر باقی آٹے میں سے کچھ نکال کر پکایا اور کھانے بیٹھے تو ایک یتیم آیا کہ اللہ کے نام پر کچھ دید و ، آپ نے یہ کھانا بھی اللہ کے نام پر اس یتیم کو دیا اور آٹے کے آخری چنے ہوۓ حصہ کو لیکر اس کو پکایا اور کھانے بیٹھے تو ایک قیدی آیا اور سوال کیا ، آپ نے یہ بھی اللہ کے نام پر دیدیا ۔اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : ترجمہ ( وہ اللہ کی محبت میں مسکین و یتیم و قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں بھائیو ! یہ اللہ کا کرم ہی ہو تا ہے کہ کوئی سخاوت کا کام کیا کرے اور یہ کرم حضرات صحابہ پر اللہ کا بے حد تھا ، اس لئے وہ حضرات حیرت انگیز قسم کی سخاوت بھی کرتے تھے ۔جس کا ایک نمونہ ہے ۔ان برگزیدہ ہستیوں نے ایک طرف لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پیغام سے رُوشناس کروایا، تو دوسری طرف خود کو نمونے کے طور پر پیش کیا تاکہ اُن کی پیروی سے دنیاو آخرت میں کام یابی حاصل کی جا سکے۔

جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ اپنی روایات کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے آج سے ان مقدّس اور پاک باز ہستیوں کے مُشک بار تذکرے پر مشتمل ایک نئے سلسلے’’ قصص الانبیاء ؑ‘‘ کے آغاز کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔اُمید ہے، قارئین حسبِ سابق ہمارے اس سلسلے کو پسند کرتے ہوئے، اپنی قیمتی آرا سے نوازتے رہیں گے۔ ایک بات ذہن نشین رہے کہ یہ کوئی تحقیقی مضامین نہیں، بلکہ عام فہم انداز میں انبیائے کرام علیہم السّلام کے ایمان افروز قصص و واقعات اور حالاتِ زندگی پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔آسمانِ دنیا کی گہما گہمی کسی بڑی خبر کی نوید سُنا رہی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، تسبیح و تہلیل میں مصروف فرشتوں کے تجسّس اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔یہ مٹّی تمام روئے زمین سے حاصل کی گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی نسل میں مختلف رنگ و زبان کے لوگ پائے جاتے ہیں‘‘(ابو دائود،ترمذی)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’ جب اللہ نے آدمؑ کو پیدا فرمایا اور اُن میں رُوح پھونکی، تو اُن کو چھینک آئی،

جس پر اُنہوں نے’’الحمدُ للہ‘‘کہا۔یوں سب سے پہلے اُن کے منہ سے اللہ کی حمد نکلی، پھر اللہ نے برحمک ربک فرمایا(ابنِ حبان)۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو چار عظیم شرف اور مرتبے عطا فرمائے۔(1)اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا(2) رُوح پھونکی(3)فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا(4)اشیاء کےناموں کے علم سے سرفراز فرمایا۔فرشتوں کو حکمِ سجدہاللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام نام سِکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا’’اگر تم سچّے ہو ،تو ان چیزوں کے نام بتائو۔‘‘اُنھوں نے کہا’’ اے اللہ!تیری ذات پاک ہے۔ہمیں علم نہیں، سوائے اس کے، جو تُو نے ہم کو سِکھایا ہے۔بے شک آپ بڑے علم و حکمت والے ہیں۔’’پھر اللہ نے حضرت آدمؑ کو حکم دیا کہ ’’ان چیزوں کے نام بتا دو‘‘،سو اُنہوں نے ان سب چیزوں کے نام بتادیئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’(دیکھو)میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کی تمام پوشیدہ چیزوں سے واقف ہوں۔میں ان باتوں کو بھی جانتا ہوں،جن کو تم ظاہر کر دیتے ہو اور جن کو تم دل میں رکھتے ہو‘‘(البقرہ 33,32,31)۔حق تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ’’آدمؑ کو سجدہ کرو، تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔

اُس نے انکار کر دیا اور تکبّر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا‘‘(البقرہ 34)۔اللہ نے ابلیس سے پوچھا،’’ جب میں نے تجھ کو حکم دیا تھا، تو کس چیز نے تجھ کو سجدے سے باز رکھا؟‘‘اُس نے کہا ’’میں اِس سے افضل ہوں۔ تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اِسے خاک سے۔‘‘اللہ نے فرمایاتو بہشت سے اُتر جا۔ تجھے حق نہیںکہ تو یہاں رہ کر غرور کرے، پس نکل جا۔ بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔‘‘اُس نے کہا’’ مجھے اُس دن تک مہلت عطا فرمایئے، جس دن قیامت آئے گی۔‘‘اللہ نے شیطان کو مہلت عطا فر دی، تو اُس نے کہا’’ اب میں تیرے بندوں کو قیامت تک بہکائوں گا۔ آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے۔‘‘اللہ نے فرمایا’’ جو لوگ تیری پیروی کریں گےمیں تجھ سمیت ان سب سے جہنّم بھر دوں گا۔‘‘(اعراف 11سے 18)ابلیس کی حقیقتابلیس اور شیطان ایک ہی صفت اور حقیقت کے دو ایسے نام ہیں کہجس کا کام اللہ کے بندوں کو ورغلانا،شر پھیلانا اُنہیں اللہ سے باغی کر کے برائی کے کاموں کی جانب راغب کرنا ہے۔یہ انسان کا وہ ازلی دشمن ہے،

جو قیامت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’’ فرشتے نور سےآدم مٹّی سے اور ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ۔‘‘حضرت عبداللہ بن عُمرؓ فرماتے ہیں کہ’’ جنّات، حضرت آدمؑ سے دو ہزار سال پہلے سے دنیا میں آباد تھےجنہوں نے دنیا میں دنگا فساد مچا رکھا تھا، چناں چہ اللہ نے فرشتوں کے ایک لشکر کو دنیا میں روانہ کیا،جنہوں نے ان جنّات کو مار مار کرسمندری جزیروں اور ویران علاقوں میں بھگا دیا۔‘‘ حضرت سعید بن منصورؒ کا قول ہے کہ’’ اس موقعے پر بہت سے جنّات قتل کیے گئے اور کچھ گرفتار بھی ہوئے۔ان ہی میں ابلیس بھی تھا، جو ابھی بچّہ تھا۔ اُسے آسمان پر لا کر رکھا گیا۔یہ فرشتوں کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو گیا اور بہت جلد علوم کا ماہر اور عبادت گزار بن گیا۔

چناں چہ اسے آسمانوں میں ’’معلم الملکوت‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ’’ابلیس آسمانوں میں فرشتوں کا سردار بن گیا تھا۔‘‘حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ ’’ابلیس کا نام، ’’عزازیل‘‘ تھا۔ ‘‘سورۃ الکہف، آیت 50میں بھی اللہ نے فرمایا کہ ’’ابلیس، جنّات میں سے تھا۔‘‘تفسیر ابنِ جوزی میں حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت ہے کہنبی کریمﷺ نے فرمایاکہ تو یہاں رہ کر غرور کرے، پس نکل جا۔ بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔‘‘اُس نے کہا’’ مجھے اُس دن تک مہلت عطا فرمایئے،جس دن قیامت آئے گی۔‘‘اللہ نے شیطان کو مہلت عطا فر دی، تو اُس نے کہا’’ اب میں تیرے بندوں کو قیامت تک بہکائوں گا۔ آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے۔‘‘اللہ نے فرمایا’’ جو لوگ تیری پیروی کریں گے، میں تجھ سمیت ان سب سے جہنّم بھر دوں گا۔‘‘(اعراف 11سے 18)ابلیس کی حقیقتابلیس اور شیطان ایک ہی صفت اور حقیقت کے دو ایسے نام ہیں کہ جس کا کام اللہ کے بندوں کو ورغلانا،شر پھیلانا اُنہیں اللہ سے باغی کر کے برائی کے کاموں کی جانب راغب کرنا ہے۔یہ انسان کا وہ ازلی دشمن ہے،

جو قیامت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ﷺ نے فرمایا کہ’’ فرشتے نور سےآدم مٹّی سے اور ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ۔‘‘حضرت عبداللہ بن عُمرؓ فرماتے ہیں کہ’’ جنّات، حضرت آدمؑ سے دو ہزار سال پہلے سے دنیا میں آباد تھےجنہوں نے دنیا میں دنگا فساد مچا رکھا تھا، چناں چہ اللہ نے فرشتوں کے ایک لشکر کو دنیا میں روانہ کیا، جنہوں نے ان جنّات کو مار مار کر سمندری جزیروں اور ویران علاقوں میں بھگا دیا۔‘‘ حضرت سعید بن منصورؒ کا قول ہے کہ’’ اس موقعے پر بہت سے جنّات قتل کیے گئے اور کچھ گرفتار بھی ہوئے۔ان ہی میں ابلیس بھی تھا، جو ابھی بچّہ تھا۔ اُسے آسمان پر لا کر رکھا گیا۔یہ فرشتوں کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو گیا اور بہت جلد علوم کا ماہر اور عبادت گزار بن گیا۔چناں چہ اسے آسمانوں میں ’’معلم الملکوت‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ابلیس آسمانوں میں فرشتوں کا سردار بن گیا تھا۔‘‘حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ ’’ابلیس کا نام’’عزازیل‘‘ تھا۔ ‘‘سورۃ الکہف، آیت 50میں بھی اللہ نے فرمایا کہ ’’ابلیس، جنّات میں سے تھا۔‘‘تفسیر ابنِ جوزی میں حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاشیطان آدمی کے جسم میں خون کی طرح سرایت کر جاتا ہے۔‘‘ بندے کا دل اس کا خاص ٹھکانا ہے۔ تاہم، شیطان کو اتنی قوّت حاصل نہیں ہے کہ وہ انسان کو راہِ حق سے زبردستی ہٹا دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ لوگوں کے دِلوں میں وسوسے اور بُرے خیالات ڈال کر اُنہیں برائی کی طرف راغب کرتا رہتا ہےاور یہی بندوں کا امتحان ہے۔

حضرت آدمؑ و حوّاؑ جنّت میںیوں تو جنّت میں تمام آسائشیں، نعمتیں موجود تھیں، لیکن اس کے باوجود حضرت آدمؑ تنہائی اور اجنبیت محسوس کرتے تھے۔چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تنہائی دُور کرنے کا بندوبست فرماتے ہوئے حضرت حوّاؑ کو پیدا کر دیا۔ محمّد بن اسحاق، حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ’’ حضرت حوّاؑ کو حضرت آدمؑ کی بائیں طرف کی چھوٹی پسلی سے پیدا کیا گیا، جب کہ وہ سو رہے تھے۔‘‘پھر اللہ نے حضرت آدم ؑ کو حکم فرمایا کہوہ اور اُن کی بیوی جنّت میں سکونت فرمائیںاور فرمایا ’’جہاں سے چاہو، بِلاروک ٹوک کھائو، لیکن اس درخت کے پاس نہجاناورنہ ظالموں میں سے ہو جائو گے‘‘ (البقرہ35:)۔ حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ بڑے آرام و سکون سے جنّت میں رہنے لگے۔روایت میں ہے کہ حضرت آدمؑ سو سال یا ساٹھ سال جنّت میں رہے۔ اس عرصے میں دونوں پر جنّت کے کسی بھی حصّے میں جانے پر پابندی نہ تھی، سوائے شجرِ ممنوعہ کے۔ شیطان اب ان دونوں کا کُھلا دشمن تھا اوراپنی سزا کا بدلہ لینے کے لیے بے قرار بھی۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ یہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔

پھر شیطان نے اُن دونوں کے دِلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ اُن کی شرم گاہیں،جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں، بے پردہ ہو جائیں۔ اُس نے اُنھیں کہا’’ تمہارے ربّ نے تم دونوں کو اس درخت سے اس لیے منع فرمایا کہ کہیں یہ پھل کھا کر تم دونوں فرشتے نہ ہو جائو یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جائو‘‘(الاعراف)۔ شیطان کی ان باتوں نے حضرت حوّاؑ کو سوچنے پر مجبور کر دیااور پھر شیطان کی مسلسل اور تواتر کے ساتھ سازشیں رنگ لائیں اور اس نے حضرت حوّاؑ کو پھل کھانے پر راضی کر لیا۔ ایک دن حضرت حوّاؑ نےحضرت آدمؑ سے کہا کہ’’ ہم اس شجرِ ممنوعہ کا ذرا سا حصّہ کھا کر تو دیکھیں،آخر وہ کیا راز ہے، جو اللہ نے اسے کھانے سے منع فرمایا ہے۔شروع میں تو حضرت آدمؑ اس کے لیے قطعی طور پر تیار نہ تھے، لیکن پھر حضرت حوّاؑ کے مسلسل اصرار پر بادلِ نخواستہ وہ بھی راضی ہو گئے۔

ابھی ان دونوں نے پھل کو پورے طور پر چکّھا بھی نہ تھا کہ اُن کی سترگاہیں ایک دوسرے پر عیاں ہو گئیں، جس پر دونوں بدحواسی اور پریشانی میں جنّت کے درختوں کے پتّے توڑ توڑ کر اپنا بدن چُھپانے لگے۔ اللہ نے دونوں کو پکارا اور فرمایا’’کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھاکہ اس درخت کا پھل نہ کھانا اور شیطان کے وَرغلانے میں نہ آنا، یہ تمہارا کُھلا دشمن ہے‘‘(الاعراف)۔دونوں نے جب اللہ کی پکار سُنی، تو مارے خوفِ الٰہی کے کانپ اٹھے۔نہایت لاچارگی اور عاجزی سے اپنی خطا پر نادم و شرمندہ ہوتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا’’اے ہمارے ربّ! ہم دونوں سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے،اب اگر آپ نے ہم پر رحم وکرم نہ کیا اور معاف نہ فرمایا، تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے‘‘(الاعراف23)۔حق تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ اب تم دونوں ایک خاص مدّت تک زمین ہی پر رہو گے، جہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر پیدا ہونا ہے‘‘(الاعراف 25)۔چناں چہ دونوں کوزمین کی طرف روانہ کر دیا گیا۔حضرت آدمؑ و حواؑ زمین پرروایت میں ہےکہ حضرت آدمؑ کو ہند، حضرت حوّاؑ کو جدّہ اور ابلیس کو بصرہ سے چند میل کے فاصلے پر، دمستیمان کے مقام پر اُتارا گیا

Leave a Comment