آیت کریمہ کی اہمیت و فضیلت، اللہ کے نبی یونس علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے، اور مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام) کو یاد کیجئے جب وہ غ ص ے کی حالت میں چل دئیے اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔ بالآخر اس نے اندھیروں میں پکارا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو پاک ہے.
بےشک میں ہی خطا کاروں میں سے ہوں تو ہم نے اس کی پکار کو قبول کیا اور غم سے نجات دی اور ہم ایمان والوں کو اس طرح نجات دیتے ہیں۔” (الانبیاء: 87) آیت کریمہ قرآن مجیدکی سورۃ الانبیاء کی مشہور آیت ہے. جیسا کہ اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں۔ اس لئے مشکل حالات میں آ-ف ا ت کو ٹالنے کے لئے آیت کریمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جائے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الحُوتِ : لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ، فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ” مچھلی والے پیغمبر کی دعا جب انہوں نے
مچھلی کے پیٹ میں پکارا ” لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ” تھی۔ یہ دعا پڑھ کےکوئی بھی مسلمان کسی جائز حاجت کے لئے دعا کرتا ہے.،تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ اس حدیث کے متعلق ہے کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول کیا یہ دعا یونس علیہ السلام کے ساتھ ہی خاص ہے؟ یا عام مومنین کے لئے بھی ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” الا تسمع الى قوله تعالى وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ ” “کیا تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنتا۔ ہم نے اسے غم سے نجات دی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذوالنون (حضرت یونس علیہ السلام) نے جو دعا مچھلی کے پیٹ میں کی تھی، جو مسلمان بھی
اپنے کسی مقصد کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعا کرے گا اللہ تعالی اس کو قبول فرمائیں گے۔ (سنن ترمذی ، رقم الحدیث : ٣٥٠٥) یعنی یہ دعا صرف یونس علیہ السلام کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں ، ایمان والوں کے لئے بھی ہے جب بھی ایمان والے اللہ تعالیٰ کو آ ف ا ت ، مش ک ل ا ت، د ک ھ میں کسی بھی کام کے لئے پکاریں گے.،تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا سن کر قبول کرے گا۔ اس لئے جو بھی شخص ضرورت مند ہے۔ وہ خود یہ دعا اللہ سے کرے۔ اپنی حاجت اللہ کے سامنے رکھ کر اسے پکارے، وہ السمیع ہے ہماری دعائوں کا سننے والا ہے۔ اگر انسان کو اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار کرنا ہے، اسے چاہئیے کہ خود اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے اس کی عبادت کی طرف متوجہ ہو۔ ت و ب ہ و استغفار سے کام لے اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے۔
وہ ضرور معاف کرے گا اور اپنی رحمت کرم کرے گا۔ ہاں آپ اپنے لئے کسی انسان سے جا کر دعا بھی کروا سکتےہیں قرآن حکیم کی اس سورۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبییونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے اور م ش ک ل ا ت میں پھنس گئے تو انہوں نے مشکل کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کو ان آیات کے ساتھ پکارا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھیروں سے نجات دے دی اور بتا دیا کہ م ش ک ل ا ت کو حل کرنے والا، م ص ائ ب سے نجات دینے والا.،دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا، سب سے بڑا فریاد کا سننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور مشکل سے نجات صرف انبیاء کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ کوئی بھی ایمان والا اللہ تعالیٰ کو پکارے تو وہ اس کی دعا سنتا اور قبول کرتا ہے۔
لہٰذا ایک مجلس میں 111 مرتبہ بھی پڑھ سکتے ہیں، اور بعض بزرگوں نے م ش ک ل ا ت کے حل اور دعا کی قبولیت کے لیے رات کی ت ا ری کی اور حجرے کی تنہائی میں 313 مرتبہ یہ آیتِ کریمہ پڑھ کر دعا کرنے کو مجرب کہا ہے۔ اور اگر لمبا وظیفہ کرنا ہو تو ستر ہزار یا سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ مرتبہ پڑھ لیں۔ بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، تاہم آیت کریمہ کو وظیفہ کے طور پر پڑھنے سے متعلق کسی حدیث میں مخصوص تعداد مقرر نہیں کی گئی، بلکہ بزرگوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں مختلف حاجات کیلئے مختلف تعداد بیان کی ہے، ان پر عمل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس مخصوص تعداد کو مسنون یا ضروری سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ والله اعلم بالصواب
Leave a Comment