;ایسے لوگ جن کےپیسوں میں یا رزق میں برکت نہیں تو پریشان نہ ہوں بلکہ اس مسئلے میں مبتلا افراد روزانہ نماز فجر اور عشا کی نماز کے بعد گیارہ ،گیارہ سو مرتبہ ’’یا غنی ‘‘ کا ورد کریں اللہ تعالی کے فضل کرم سے ان کے رزق میں بے پناہ اضافہ اور برکت آجائے گی یہ مجرب وظیفہ رزق اور بندش کے خاتمہ کیلئے نہایت بہترین ہے کوئی بھی دکانداراور تاجر دفتر کھولنے سے پہلے ستر مرتبہ ’’یا غنی‘‘ پڑھے گا تو انشااللہ اللہ پاک کاروبار میں برکت اور رزق میں اضافہ ہو گا اور کبھی بھی کسی نقصان کا خوف نہیں رہے گا ۔
جمعرات اور جمعہ کی شب اس اسم شب اس اسم مبارک ’’یا غنی ‘‘ کو انیس ہزار مرتبہ پڑھنے اور عمل کو جاری رکھنے سے انسان کو غیب سے دولت ملتی ہے۔اوربہت جلد کاروبار میں ترقی ہوگی اور رزق حلال کہاں کہاں سے آئے گا کہ عقل دنگ رہ جائے جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں تفصیلی گفتگو، اور دعا کیلئے آخری سجدہ کو لمبا کرنے کا حکم میں ہر جمعہ کو غروبِ آفتاب سے قبل -جس کے بارے میں قبولیت کی گھڑی ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے- مسجد میں جان بوجھ کر داخل ہوتا ہوں، اوراللہ کیلئے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کرتا ہوں؛ پھر دوسری رکعت کے آخری سجدہ کو غروب آفتاب تک لمبا کرتا ہوں، اور اس دوران سجدے کی حالت میں دعا ہی کرتا رہتا ہوں، یہاں تک کہ مغرب کی آذان ہوجاتی ہے؛ کیونکہ جمعہ کے دن آخری لمحات میں قبولیت کی گھڑی پانے کا اچھا موقع ہوتا ہے، اور قبولیت کے امکانات مزید روشن کرنے کیلئے میں سجدے میں دعا مانگتا ہوں،
اور بسا اوقات اگر کسی سببی نماز کا وقت نہ ہو ، یا نفل نماز کیلئے ممنوعہ وقت ہو تو میں جان بوجھ کر ایسی سورت کی تلاوت کرتا ہوں جس میں سجدہ تلاوت ہو، تو تب بھی میں اتنا لمبا سجدہ کرتا ہوں کہ جمعہ کے دن مغرب کی آذان ہو جائے، ایک دن میں ایسے ہی کر رہا تھا کہ ایک آدمی نے آکر میرے ذہن میں اس عمل کے بارےمیں شکوک و شبہات پیدا کردئیے، اور اس عمل کے بارے میں “بدعت” ہونے کا بھی عندیہ دے دیا۔ تو کیا میرا یہ عمل بدعت ہے؟ حالانکہ میری نیت یہی ہے کہ جمعہ کے دن آخری لمحات میں قبولیت کی گھڑی تلاش کی جائے، اور میں سجدے کی حالت میں اللہ سے دعا مانگوں، تو اس طرح قبولیت کیلئے دو امکانات ہونگے، اس عمل کیلئے میری نیت یہ ہی ہے کہ قبولیت کی گھڑی تلاش کروں۔علمائے کرام نے جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کو متعین کرنے کیلئے متعدد اور مختلف آراء دی ہیں، ان تمام آراء میں دلائل کے اعتبار سے ٹھوس دو اقوال ہیں: 1- یہ گھڑی جمعہ کی آذان سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے۔ 2- عصر کے بعد سے لیکر سورج غروب ہونے تک ہے۔ ان دونوں اقوال کے بارے میں احادیثمیں دلائل موجود ہیں، اور متعدد اہل علم بھی ان کے قائل ہیں۔
*الف- پہلے قول کی دلیل : ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں کہتے ہوئے سنا: (یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے) مسلم: (853) اس موقف کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “سلف صالحین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں سے کونسا قول راجح ہے، چنانچہ بیہقی نے ابو الفضل احمد بن سلمہ نیشاپوری کے واسطے سے ذکر کیا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: “ابو موسی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مسئلہ کے بارے میں صحیح ترین اور بہترین ہے” اسی موقف کے امام بیہقی، ابن العربی، اور علمائے کرام کی جماعت قائل ہے۔اور امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث اختلاف حل کرنے کیلئےواضح ترین نص ہے، چنانچہ کسی اور کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہئے۔
اور امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: یہی موقف صحیح ہے، بلکہ درست بھی یہی ہے، امام نووی نے اپنی کتاب: “الروضہ” میں ٹھوس لفظوں میں اسی کو درست قرار دیا ہے، اور انہوں نے اس حدیث کو مرفوع اور صریح قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ روایت صحیح مسلم کی ہے” انتہی ” فتح الباری ” ( 2 / 421 ) *ب- دوسرے موقف کی دلیل جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(جمعہ کا دن بارہ پہر[گھڑیوں ]پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اُسے وہی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو)اس روایت کو ابو داود: (1048) اور نسائی : (1389) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے “صحیح ابو داود” میں اسے صحیح قرار دیا ہے، اسی طرح نووی نے “المجموع” (4 / 471) میں صحیح کہا ہے۔جبکہ اس موقف کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے، جن میں سب سے پہلے دو صحابی ابو ہریرہ، اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہما ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:”دیگر علمائے کرام عبد اللہ بن سلام کے قول کو راجح قرار دیتے ہیں،
چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نےامام احمد رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ : “اکثر احادیث اسی موقف کی تائید کرتی ہیں” ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس مسئلہ میں مضبوط ترین یہی موقف ہے” اور اسی طرح سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے صحیح سند کیساتھ نقل کیا ہے کہ : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ایک جگہ جمع ہوئے، اور جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو مجلس ختم ہونے سے پہلے سب اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ یہ جمعہ کے دن کے آخری وقت میں ہے” متعدد ائمہ کرام بھی اسی موقف کو راجح قرار دیتے ہیں، مثلا: امام احمد، اسحاق، اور مالکی فقہائے کرام میں سے طرطوشی، اور علائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انکے استاد ابن زملکانی–جو اپنے وقت میں فقہ شافعی کے بڑے تھے- بھی اسی کے قائل تھے، اور وہ امام شافعی سے صراحت کیساتھ نقل بھی کرتے تھے” انتہی “فتح الباری” (2/421) ان دونوں گھڑیوں میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اکثر احادیث اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قبولیت کی گھڑی عصر کی نماز کے بعد ہے،
اور زوال کے بعد بھی قبولیت کی گھڑی کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے۔” اس قول کو امام ترمذی نے اُن سے نقل کیا ہے۔ ” سنن ترمذی” ( 2 / 360 ) ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “میرے نزدیک یہ ہے کہ: نماز کا وقت ایسی گھڑی ہے جس میں قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے، چنانچہ یہ دونوں [عصر کے بعد، اور جمعہ کی نماز کا وقت] قبولیت کے اوقات ہیں،اگر چہ عصر کے بعد کے وقت کو اس اعتبار سے خصوصیت حاصل ہے کہ یہ گھڑی آگے پیچھے نہیں ہوگی، جبکہ نماز کی گھڑی نماز کیساتھ منسلک ہے، تو نماز کے آگے پیچھے ادا کرنے سے اس گھڑی کا وقت بھی تبدیل ہوگا؛ کیونکہ مسلمانوں کے ایک جگہ جمع ہوکر ، اور اکٹھے خشوع و خضوع کیساتھ اللہ کی جانب رجوع کرتے ہوئے نماز ادا کرنے کی بھی ایک تاثیر ہے، چنانچہ مسلمانوں کا یک جا جمع ہونا بھی ایک ایسی گھڑی ہے جس میں قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے” چنانچہ اس تفصیل کیساتھ تمام احادیث کا مطلب ایک ہوسکتا ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ان دونوں اوقات میں دعا کرنے کی ترغیب دلائی ہے” انتہی”زاد المعاد” (1/394)
Leave a Comment