۱)واضح رہے کہ شرعاً شوہر پر یہ تو واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان و نفقہ اور رہائش کا انتظام کرے، اسی طرح رہائش کے لیے ایک الگ کمرہ اور باورچی خانہ اور بیت الخلا کی سہولت دینا ضروری ہے، لیکن الگ جگہ پر گھر لے کر دینا شوہر پرشرعاً واجب نہیں ہے، ہاں اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت بھی سمجھتا ہو تو اس کی بھی گنجائشہے۔ ۲) اگر والدین اپنا خرچہ خود اٹھا نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد صاحبِ حیثیت ہو یعنی اپنا خرچہ چلانے کے ساتھ والدین کا خرچہ بھی اٹھا سکتی ہو
تو والدین کے خرچے کی ذمہ داری بیٹوں اور بیٹیوں دونوں پر برابر برابر واجب ہوگی، یہ اولاد کے ذمے والدین کا واجبی حق ہے، اس ضابطے کی روشنی میں آپ اپنے گھر کی صورتِ حال دیکھ لیجیے، اگر آپ کے والدین کے نفقے کا انتظام نہیں ہے تو آپ کی استطاعت کے بقدر آپ کے ذمے ان کا نفقہ بھی ہوگا، جو آپ کے دیگر بھائیوں اور بہنوں کے موجود ہونے کی صورت میں سب پر تقسیم ہوگا۔ اور اگر آپ کے والدین کو ضرورت نہیں ہے تو بھی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہنا چاہیے، لہٰذا بیوی کو جدا کمرہ، باورچی خانہ اور کچن اور نفقہ وغیرہ دینے کے بعد آپ کی گنجائش ہو تو وقتًا فوقتًا والدین کی خدمت کرتے رہیے۔ ۳) بیوی اگرشوہر کی اجازت کے بغیر بلا وجہ میکے میں بیٹھی ہو وہ ناشزہ ہونے کی وجہ سے نفقہ کی حق دار نہیں، جب تک وہ واپس شوہر کے گھر نہ آجائے یا شوہر اس کو میکے میں رہنے کی اجازت نہ دے دے اس وقت تک شوہر کے ذمہ اس کا نان نفقہ دینا واجب نہیں ہے۔
اگر آپ کی بیوی آپ کے ہاں آجاتی ہے تو محض شوہر کی بے عزتی کرنے سے (نفقہ ساقط ہونے کے حوالے سے) بیوی پر ناشزہ کا حکم نہیں لگے گا، البتہ شوہر کے بارے میں بیوی کا ایسے الفاظ استعمال کرنا جس سے شوہر کی تذلیل و توہین ہو، اور کسی کی نجی گفتگو کا اِفشا کرنا سخت گناہ کی بات ہے، کسی بھی مسلمان کوبلا وجہ ذلیل کرنا گناہِ کبیرہ ہے، اور شوہر کا تو بیوی پر بہت بڑا حق ہے، حدیثِ پاک میں ہے کہ اگر میں کسی کو دوسرے کو سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔ بہر حال شوہر کی بےعزتی کرنے والی بیوی سخت گناہ گار ہے، اسے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور بھی توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے شوہر سے بھی معافی مانگنی چاہیے، اگر وہ تائب نہیں ہوتی اور شوہر بھی اس کوتاہی پر معاف نہیں کرتا تو حدیثِ پاک میں ایسی عورت کے لیے وعید ہے۔ اگر عورت معافی مانگ لیتی ہے تو بہتر، اگر وہ معافی نہیں مانگتی
اور بدزبانی کی عادت بنا لیتی ہے، اور نصیحت اور سمجھانے سے بھی باز نہیں آتی تو شوہر اپنے احوال دیکھتے ہوئے اسے نکاح سے خارج کرنے کا حق رکھتاہے۔ نیز مرد کے لیے نامحرم عورتوں سے بلاضرروت گفتگو، ہنسی مذاق اوربے تکلفی کرنا جائز نہیں، نیز یہ عمل سخت فتنہ کاموجب ہے۔اور خاندانوں میں توڑ کا سبب بھی بن جاتا ہے، لہٰذا شوہر کو بھی اس طرح کے کاموں سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ اگر کسی نامحرم سے بات چیت کی ضرورت پیش بھی آئےتونگاہ نیچی کرکے بات چیت کی جائے، لہجے میں بھی شدت ہونی چاہیے۔نیکی کی بات کو پھیلانا بھی صدقہ جاریہ ہے اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین
Leave a Comment