آپ نے اب تک تیزی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ پیدا ہوئے‘ پروان چڑھے‘ تعلیم پائی‘ ملازمت اختیار کی یا کاروبار اپنایا‘ شادی ہوئی‘ متاہل زندگی گزاری‘ بچوں کو پالا‘ انہیںتعلیم دلائی‘ ان کے شادی بیاہ کردئیے‘ ہر کام تیزی سے کرنا ضروری تھا دوڑ ختم کردیجئے‘ رکیے‘ ٹھہرئیے! جوانی نیلامی کی بولی تو
نہیں ہے کہ ایک دو تین کہتے ہی ختم ہوجائے گی۔ بوکھلاہٹ کیسی؟ جوانی آپ سے جدا نہیں ہورہی‘ آپ ہی جوانی کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ ہر کام میں تیزی سے کام لے کر آپ جوانی سے دور بھاگ رہے ہیں۔ آپ نے جلدبازی کو شعار بنارکھا ہے۔ آپ نے زندگی کی رفتار کو خود ہی تیز بنالیا ہے۔ آپ دوڑ لگارہے ہیں۔ تیز اور تیز۔ اسی تیزی میں آپ جوانی کو پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔ آپ نے اب تک تیزی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ پیدا ہوئے‘ پروان چڑھے‘ تعلیم پائی‘
ملازمت اختیار کی یا کاروبار اپنایا‘ شادی ہوئی‘ متاہل زندگی گزاری‘ بچوں کو پالا‘ انہیںتعلیم دلائی‘ ان کے شادی بیاہ کردئیے‘ ہر کام تیزی سے کرنا ضروری تھا۔ آخر ہر بات کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ان کاموں کو نمٹاتے آپ کی عمر کا پیمانہ بھی لبریز ہوجائے اور یہ بھی حیرت کی بات نہیں کہ زندگی کی اس دوڑ سے آپ کے چہرے پر تھکن کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں۔ آپ میں بڑھاپے کی علامات دیکھ کر آپ کو گوشہ نشین ہوجانے کیلئے کہا جاتا
ہے۔ ٹھیک ہے! اب آپ جہاں ہیں وہیں رک جائیں۔ اپنے آپ سے کہیں، ”آج کے بعد سے ایک تبدیلی آئے گی‘ زندگی میں انقلاب آئے گا۔“ یہ تبدیلی‘ یہ انقلاب آپ کی زندگی کی کایا پلٹ دے گا اور یہ کایا بہتری کی طرف ہی لے جائے گی۔ سرگرانی‘ بھاگ دوڑ اور دم گھٹنے کا زمانہ ختم ہوا۔ تبدیلی کی شرط یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کو تسلیم کرکے اسے اہمیت دیں۔ دوسروں پر انحصار کم کرکے اپنے اوپر زیادہ اعتماد کریں۔ یہ تبدیلی عادتوں کی ہے۔ آپ کو خود کو اپنی خواہشات کا
غلام بنانے کی بجائے اپنے نفس پر قابو رکھنا ضروری ہے۔ یہ تبدیلی رفتار کی ہے۔ آج سے آپ کو جلد بازی ترک کردینی پڑے گی ۔ آج آپ کے پاس بہت وقت ہے۔ آپ کو اپنے وقت کی قدر کرنی ہے۔ یہ وقت صرف اپنی ذات پر صرف کریں۔ خود فیصلہ کریں کہ اس وقت کو کس کام میں لائیں۔ یاد رکھیں یہ وقت آپ کا ہے اور بہت ہے۔ آپ کو سوسال جینا ہے بلکہ یہ عمر بھی توقع سے کہیں کم ہے۔ اس لیے اپنے وقت کا مصرف اپنے لیے سوچیں۔ آپ عمر کے جس دور سے
گزر رہے ہیں اس میں یقیناً آپ بدلنے لگے ہیں۔ آپ کے بال قدرے سفید ہوگئے ہیں یا کچھ کچھ گنجے ہوگئے ہیں۔ چہرے پر جھریاں پڑنے لگی ہیں۔ جسم بھاری بھرکم یا دبلا پتلا ہوگیا ہے۔ آپ آئینہ دیکھتے ہیں تو خود سے کہتے ہیں‘ ”افسوس! اب بڑھاپے کی منزل شروع ہوگئی‘ مگر یہ تو ہونا ہی تھا۔ کچھ عرصے بعد میں بھی خاندان کے دوسرے بوڑھوں جیسا ہوجاوں گا۔“ سوچئے کیا آپ کے بال اسی لیے تو سفید نہیں ہوگئے یا جھڑگئے کہ آپ کو ایسا ہونے کی پہلے ہی سے
توقع تھی؟ آپ جب بھی آئینے کے سامنے ہوتے تو غیرشعوری طور پر اپنے چہرے پر بڑھاپے کی علامات تلاش کرتے اپنا موازنہ خاندان کے اس بوڑھے سے کرتے جس کے بارے میں سب کہتے تھے کہ آپ کی صورت اس سے بہت ملتی ہے؟ یہ نفسیاتی اثر اپنے ذہن ودل سے نکال دیں اور خود کہیں ”میں! ہاں میں جو اس وقت آئینے کے سامنے بیٹھا ہوں ایک نوجوان آدمی ہوں!“ یہ بات بلند آواز سے کہیں اور بار بار کہیں‘ اپنے آپ کو تسلیم کرادیں کہ آپ جوان ہیں۔ آج کے
بعد سے خود کو ایک جوان آدمی کے روپ میں دیکھنا شروع کردیں۔ وہ اہم واقعات یاد کریں جو آپ کو بیس سے تیس یا پینتیس سال کی عمر کے دوران میں پیش آئے تھے۔ وہ خاص مواقع ذہن میں لائیں جب آپ نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان تقاریب کا تصور کریں جن میں آپ بہت ہی اچھے لگے تھے۔ اس بات کا امکان ہے کہ عہد شباب کی کوئی پسندیدہ یادگار گھر میں موجود ہو اسے تلاش کریں اور غور سے اسے دیکھ کر یہ خیال کریں کہ آپ اب بھی اس یادگار
جیسے ہی ہیں۔ خواہ آپ بالوں‘ دانتوں‘ بینائی‘ چہرے کی تازگی کے لحاظ سے بدل گئے ہوں لیکن پھر بھی آپ یقین کریں کہ آپ اب بھی اس وقت جیسے ہی ہیں جس وقت یہ یادگار بنی تھی۔ آپ کی ہڈیوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی؟ آپ کا گوشت پوست اور اعضا تو وہی ہیں جو پہلے تھے۔ یہ صورت جس پر بڑھاپے کا خول چڑھ گیا ہے اس کے پیچھے آپ کی جوانی جھلک رہی ہے۔ آپ کوشش کرکے بڑھاپے کے اس خول کو اتار سکتے ہیں پھر آپ کی جوانی چہرے پر دوبارہ
جلوہ فگن ہوجائے گی۔ یقینا آپ کی حالت بدل جائے گی کوئی بھی بات پورے یقین اور تواتر کے ساتھ کہی جائے تو وہ پوری ہوجاتی ہے۔ وزن اٹھانے کی مشق کرنے والے اسی تواتر کی بدولت بے انتہا وزن اٹھا کر دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیتے ہیں۔ تواتر کے عمل سے ہر شخص خود کو بدل سکتا ہے۔ پھر خود کو بدلنے کا ابھی اسی وقت فیصلہ کیوں نہ کرلیں؟ خود کو بہتر بنانے کی تبدیلی لانا کتنی اچھی اور مثالی بات ہے۔ آپ کے اندر آپ کی اصل شخصیت آپ کی
جوانی آپ کو پکار رہی ہے۔ آپ کا چھپا ہوا شباب آواز دے رہا ہے ۔ ”مجھے باہر آنے دو“ اسے باہر لانے کی یہی صورت ہے کہ اپنی جوانی کا پسندیدہ تصور ہر وقت اپنے ذہن کی آنکھوں کے سامنے رکھیں۔ اگر آپ واقعی دل سے یہ محسوس کرنے لگیں کہ آپ اب بھی جوانی کی تصویر جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں اور جب بھی آئینہ کے سامنے ہوں اپنی جوانی ہی کا تصور کریں تو یقین مانئے زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آپ ہر آئینے میں خود کو جوان دیکھنے لگیں گے
اور آپ کو دیکھنے والے حیرت سے کہہ اٹھیں گے: ”ارے واہ آپ تو پھر سے جوان ہورہے ہیں۔ مزید مضامین صدقہ جاریہ کی نیت سے شیئر کریں
Leave a Comment