ڈیلی کائنات! محسن ِ انسانیت ﷺ کی ذات مقدسہ سے آگ کو کتنی محبت تھی اور اس نے محبت کا اظہار کرکے اپنے عشق کی انتہاء کردی۔ شیبہ بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد قبیلہ بنی ہوازن سے گھمسان کا رن پڑا تو میں اس موقع کی تلاش میں تھا کہ کوئی بہانہ ملے۔ آپﷺ غافل پاؤں اور اچانک حملہ کرکے اپنے مقتول چچا کا انتقام لے لوں اوردل میں یہ پختہ ارادہ کیا ہوا تھا کہ اگر اسلام عرب وعجم کے کونے کونے تک بھی پہنچ جائے
میں ہر گز اسلام اسلام قبول نہیں کروں گا۔ جب آپ ﷺ اپنی سواری سے نیچے اترے اور صحابہ کرام انتہائی افراتفری کا شکار ہوئے تو میں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا۔ اپنی تلوار میان سے نکالی اور اپنے مذموم ارادہ کی تکمیل کےلیے قریب ہواتو میں نے دیکھا کہ آپﷺ کے دائیں جانب آپ کے چچا حضرت عباس انتہائی مستعد کھڑے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ تو کسی قیمت پر مجھے آگے نہیں بڑھنے دیں گے میں بائیں طر ف ہوا تو آپ کے چچا زاد بھائی ابو سفیان کھڑے تھے ادھر بھی یہی کفیت تھی میں آپ کے پیچھے کی طرف ہوا وہاں کوئی بھی نہیں میں نے اچانک بھر پور وار کرنے کو لپکا ، تلوار لہرائی، حملہ کرنے ہی والا تھا کہ آگ کا ایک بہت بڑا شعلہ میرے اور آپ کے درمیان حائل ہوگیا۔ اس آگ کی چمک اتنی تیز تھی کہ
میری آنکھیں چندھیاں گئیں میں ڈرکے پیچھے ہٹا تو۔ اچانک حضورﷺ نے پیچھے دیکھا اور مجھے پہچان کر فرما یا۔شیبہ ادھرمیرے قریب آؤ۔میں قریب ہو تو جان ِ عالم ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر دعا فرمائییااللہ ! اس سے شیطان کو دور فرمادےاس کے بعد جب میں آپ کی طرف دیکھا تو سرکار مجھے اپنی آنکھوں اپنی جان اور اپنے دل سے بھی زیادہ پیارے نظرے آنے لگے۔ بس آپ کی ایک توجہ سے ایک نگاہ سےدل سے فیصلہ ہوگیا کدوتیں ختم ہوجائیں ، دوریاں ہوئیں آپ ﷺ نے فرمایا چل اور کفار سے بنر د آزما ہوجاوہ تلوار جو حضور ﷺ کا دشمن بن کر لایا تھا وہ حضور ﷺ کے حق میں کام آگئی میں اسلام کا سپاہی بن کر دشمنانِ اسلا م پر ٹوٹ پڑا جب بنی ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ میدان چھوڑکر بھا گ نکلے
اور حضورﷺ اپنی قیام گاہ میں تشریف لائے اور میں اس وقت آپ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا۔تمام تعریفیں اسی اللہ رب العز ت کے لیے ہیں جس نے تیرے بارے میں خیر کا ارادہ فرمایا اور تم تو اپنی کشتی ڈبو نے کا فیصلہ کر چکے تھے۔پھر حضور ﷺ نے وہ تمام باتیں مجھے ارشاد فرمائیں جو میں نے آپ کے بار ے میں اپنے دل میں چھپائے پھرتا تھا
Leave a Comment