ڈیلی کائنات! میں آپ کو ایک معصوم لڑکی پر بیتی دکھ بھری سچی کہانی سنانے جا رہی ہوں۔آج میری زندگی کا بہت اہم انسان آ رہا تھا وہ انسان جس کے نام سے منسوب ہو کر میں پچھلے سالوں پانچ سالوں سے منتظر تھی وہ انسان جس نے زمانے بھر سے ٹکر لے کر مجھے اپنا بنا یا تھا عارف مجھ سے نکاح کرنے کے چند ہی روز بعد اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے بیرون ملک جا بسا تھا آج وہ پھر سے پانچ سال بعد میرے گھر آ رہا تھا شاید وہ میری رخصتی کی بات کر نے کے لیے آ رہا تھا۔
میں بے حد خوش تھی کہ میری اس ذلت بھر ی زندگی سے جان چھٹ جائے گی اور میں آرام سے پیا ہ کے دیس شہزادیوں کی طرح رہوں گی کیونکہ میں جو زندگی گزار رہی تھی ۔یہ صرف میرا دل ہی جانتا تھا کہ اس زندگی نے مجھے دن رات کتنی بڑی اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا خیر میں نے گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے تھے شام کا وقت ہونے کو تھا۔ جب اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو حسبِ توقع سامنے عارف کھڑا تھا میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اندر لے آ ئی وہ ہمیشہ سے بڑا مودب ثابت ہوا تھا خاموشی سے مہمان خانے آ کر بیٹھ گیا گھر پر اماں کے علاوہ ابا بھی موجود تھے۔ لیکن بیماری کی وجہ سے وہ بستر کے ہو کر رہ گئے تھے اس وقت وہ گہری نیند سو رہے تھے میں عارف کے لیے چلائے لے کر آئی تو ہمارے درمیان رسمی سلام دعا کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد وہ چائے پیتے۔ میری جانب بہت گہری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جن کے ساتھ میں مزید سمٹ جا یا کرتی تھی لیکن آج اس کی آ نکھوں میں ایک عجیب سا احساس تھا۔
نہ جانے وہ کیا تھا جسے میں سمجھ نہیں پائی مجھے دیکھتے ہی ایک دم بو لا آنٹی سنا ہے آپ کی بیٹی شعر بہت اچھے پڑ ھتی ہے۔ میں بھی سننا چاہتا ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو عارف کی یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ ایک دم چونک سی گئی مگر میں نے جذبات کو قابو کرتے ہوئے کہا نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں میں اپنی بات مکمل نہیں کر پائی تھی کہ اماں نے میری جانب دیکھا اور بولی بیٹی تمہارے شوہر ہے کوئی فر مائش کر رہا ہے تو پوری کر دو۔ اماں کی بات سن کر میرا دل مٹھی میں آ گیا عارف کے نظریں متواتر میرے چہرے پر مرکوز تھیں۔ جیسے وہ میرے چہرے کے تاثرات پڑھ رہا ہو یا کچھ کھوج رہا ہو۔ میں نے نگا ہیں جھکا لیں اور شعر پڑھنے لگی۔ عارف دل ہی دل میں ناجانے کیا سوچ رہا تھا۔ کیوں کہ شعر ختم ہو جانے کے چند منٹ تک وہ کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔ اماں کے پکڑنے پر ایک دم چونک کر اماں کی جانب دیکھنے لگا او ر ساتھ ہی مجھے بہت اد دی لیکن اس کا داد دینے کا انداز بالکل ایسے تھا جیسے کسی بازاری عورت کے حسن کی تعریف کی جاتی ہو۔
اب میں روز اپنی آنکھوں کو خوبصورت میک اپ سے سجا کر صرف سکاف تلے چھپاتی اور اپنے چہرے کو بھی نقاب میں چھپا لیتی پھر فیس بک پر لوگوں سےایسی ایسی باتیں کر تیں جو کسی عزت دار کے گھرانے کی لڑکی نہیں کرتی۔ شروع شروع میں مجھے بے حد جھجھک محسوس ہوتی لیکن آہستہ آہستہ یہ میری زندگی کا حصہ بننے لگا۔ پھر میں نے ایک یو ٹیوب چینل بھی بنا لیا جس پر اپنی ہی لگا لیا کر تی تھی۔ میں لوگوں کو گانے سناتی ۔ کئی نوجوان لڑکوں کے لیے شعر پڑھا کرتی ۔ ہزاروں لوگ مجھے داد دیتے ۔ ہر ایک آ نکھوں اور آواز کا دیوانہ تھا۔ آہستہ آہستہ میری شہر ت بڑھنے لگی ۔ میرے فینز کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں ہو گئی اس مقام تک آنے میں اچھی خاصی محنت کی تھی لیکن یہ میں بھول گئی تھی کہ آج کل ہر انسان جدید ٹیکنا لوجی سے متعارف ہو چکا ہے۔ کہیں کوئی اپنا مجھے پہچان نہ لے کبھی کبھی دل چاہتا کہ یہ سب چھوڑ دوں مگر میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ میرے ماں باپ کا اچھا علاج ہونے لگا میں کسی طور یہ سب چھوڑ نہیں سکتی تھی۔جن بہنوں کے بھائی جیتے جی مر جائیں وہ ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
دن ہفتوں ہفتے سالوں میں گزر گئے کئی بار دل میں خیال آ تا کہ اگر عارف کو اس سب کے بارے میں معلوم ہو گا تو میرا کیا بنے گا کہ وہ دن آہی گیا کہ عارف کے سامنے میرا یہ راز کھل گیا میرا جی چاہتا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ہو جاؤں لیکن ہم جیسے گناہ گاروں کی زندگی اتنی آسانی سے کہاں تمام ہوتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا کئی دن عارف کے دئیے ہوئے پیسوں کے ساتھ کٹ گئے میں وہ رقم استعمال نہیں کر نا چاہتی تھی لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ وہ ختم ہو گئی مجھے پھر سے اس کیمرے اور مو بائل کا سہارا لینا پڑا میں روز خود کو ملا مت کر تی لیکن پھر مجبور ہو کر وہی گناہ کر بیٹھتی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میرا یہ گناہ میرے گلے کا طوق بن جائے گا۔ ایک روز مجھے گھر کا سامان لینے باہر جا نا پڑا میری چادر سوکھنے کے لیے ڈالی ہوئی تھی۔ تمہارے چہرےسے کوئی غرض نہیں ہے یہ سب کہتے ہوئے وہ میرے آنکھوں پر ٹارچ پر لگائے مجھے گھور رہا تھا۔ وہ بالکل پاگل لگ رہا تھا۔ میرے ابا کا انتقال ہو گیا تھا۔
اماں بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھے بری طرح پیٹنے لگی کہاں چلی گئی تھی تو تیرے باپ تیری یاد میں مو ت کے منہ میں چلا گیا اماں کی حالت دیکھ کر مجھے خود پر غصہ آ نے لگے۔ تھوڑی دیر میں محلے والے بھی جمع ہو گئے مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ظاہر ہے مجھے لوگوں کے اس سوال کا بھی جواب دینا تھا کہ رات کے اس پہر گھر سے باہر گزار کر کہاں سے آئ ہوں میرے ابا کی چارپائی اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جا ئی جا رہی تھی۔ اور میں وہیں زمین پر بیٹھی زارو قطار خاموشی سے آ نسو بہا رہی تھی اما ں مجھے روتے ہوئے پیٹتے ہوئے وہاں سے اٹھا کر کمرے میں لے آئیں انہوں نے مجھے بتایا کہ رات کو ابا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور تم گھر پر نہیں تھی کھانستے کھانستے ان کی جان نکل گئی یہ کہہ کر اماں پھر سے رونے لگی تو کہاں چلی گئی تھی اماں نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا ہم ماں بیٹی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ایک ماں ہی بیٹی کے دل کا حال سمجھ سکتی ہے اماں نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا پھر ابا کی موت کو چند دن ہی گزرے تھے کہ محلے والوں نے ہمیں نکال دیا۔
وہ ایک گھر ہی ہمارا واحد سہارا تھا۔ ہم نے وہ گھر بیچ دیا اور دوسرے گاؤں میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ یہ راز آ ج تک دل میں محفوظ ہے کہ رات کو کیا ہوا تھا میرے بھائی کو میں نے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ میں ہر وقت اپنے اللہ سے معافی مانگتی ہوں۔ کہ میرے گناہوں کو معاف کر دے ۔ میں نے نئے محلے میں اپنی جان پہچان بنا لی ہے میں کیسے بھول سکتی تھی کہ بے شک ساری دنیا ہمیں چھوڑ دے لیکن اللہ کبھی نہیں چھوڑتا اب میں نے اپنے رب کا سہارا لیا ہے میں محلے کے بچوں کو قرآن پڑھاتی ہوں ۔ اور باقی وقت اپنے گھر کے کاموں اور اماں کی خدمت میں گزارتی ہوں۔ شاید اللہ نے مجھے معاف کر دیا تو پھر محلے کے لوگ ہماری عزت کرتے ہیں لیکن ایک بات آپ سب سے پو چھنا چاہتی ہوں کہ کیا مجھے اس رات کا راز اپنی ماں کو بتا دینا چاہیے یا پھر زندگی اسی طرح خاموشی سے چلتی رہے جیسے کچھ سالوں سے چل رہی ہے۔
Leave a Comment