علمی سپاٹ! بیت اللہ شریف بلاشُبہ دنیا کا سب سے خوبصورت اور اہم ترین مقام ہے۔ امتِ مسلمہ اس مقام کی دل سے عزت اور یہاں جانے کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ ہر مسلمان اپنی وفات سے قبل ایک جھلک خانہ کعبہ اور وہاں موجود مقدس چیزوں کو دیکھنے کی آرزو کرتا ہے۔ یقیناً ہر مسلمان کے لئے بیت اللہ شریف دیکھنے کا شَرف حاصل کرنا چاہتا ہے۔حجر اَسود بیت اللہ شریف کا اہم ترین حصہ قرار دیا جاتا ہے۔
حجر اسود کی تاریخ سے متعلق کئی آراء پائی جاتی ہیں۔ سعودی حکومت حجر اسود کی حفاظت کے لئے ہر ممکن حفاظتی انتظامات عمل میں لاتی ہے تاکہ زائرین کی جانب سے اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ سکے۔ حجر اَسود جنت کا پتھر کہلاتا ہے۔ در حقیقت حجر اسود آٹھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے جن میں بڑا ٹکڑا 2 اور چھوٹا ٹکڑا ایک سینٹی میٹر ہے۔ ان تمام ٹکڑوں کو درختوں سے حاصل ہونے والے للبان العربی الشحری یا الحوجری بروزہ مادے جسے خوشبو داری دھونی سے جوڑا گیا ہے۔اسلامی تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود وہ پتھر ہے جسے جنت سے زمین پر اُتارا گیا اور اسے جبل ابو قبیس میں رکھا گیا۔ اِس مقدس پتھر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت خانہ کعبہ کی زینت بنایا اور جب سے یہ کعبہ کا جزو قرار پایا۔ آغاز میں یہ ایک ہی پتھر تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک پتھر نہیں رہا بلکہ ٹوٹ چکا ہے
۔ حجر اسود کی حفاظت کے لئے اس پر سونے اور چاندی کی قلعی بھی کی جاتی ہے۔باب کعبہ کے مستری کے پوتے فیصل بن محمد بن محمود بدر کو حجر اسود کی صفائی اور اس کے حفاظتی انتظامات کرتے دیکھا گیا۔ فیصل نے یہ کام اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا جو نسل درنسل ان تک منتقل ہوا ہے۔ ان کے آباؤ اجداد کا شمار کعبتُہ اللہ کی مرمت کی مسلسل سعادت حاصل کرنے والے خاندانوں میں ہوتا ہے۔ حجراسود کی حفاظت اور دیکھا بھال کے لئے اس کی مسلسل دیکھ بحال کی ضرورت ہوتی ہے
Leave a Comment