پاکستان نیوز ! غلافِ کعبہ بنانے کی تیاری کو بہت اہم اور باعث شرف کام قرار دیا جاتا ہے جس کے لیے باقاعدہ طور پر خصوصی تقریب کا انعقاد بھرپور اسلامی طریقے سے کیا جاتا ہے۔غلاف کعبہ کی تیاری کو انتہائی سعادت کی بات سمجھا جاتا ہے، اب ایک خصوصی شہر میں غلاف کعبہ تیار کیا جاتا ہے
لیکن تاریخ میں اس مقدس سعادت حاصل کرنے کے مختلف طریقے تھے۔زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ غلاف کعبہ کی تیاری کو سعادت سمجھتے تھے۔ اس وقت ایک شخص غلاف کعبہ کی تیاری کی سکت نہیں رکھتا تھااس لیے کئی کئی لوگ مختلف قسم کے غلاف تیار کرتے اور قریش کو جو غلاف سب سے زیادہ پسند آتا وہ اسے خرید لیا کرتے تھے۔ قبل از اسلام یمن کے ایک تاجر ابو ربیعہ بن المغیرہ المخزومی نے قریش کے سامنے پیش کش کی کہ وہ اکیلا ہی غلاف کعبہ تیار کرے گا۔ قریش نے اس کی پیش کش قبول کرلی۔ وہ کئی سال تک غلاف بنا کر قریش کو فروخت کرتا،
ظہور اسلام سے تھوڑا عرصہ قبل وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔اب آپ سب بھی یہ بات جاننے کے لیے انتظار میں ہوں گے کہ وہ 3 خوش قسمت عورتیں کون تھیں جنہیں کعبہ شریف کا غلاف تبدیل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔العربیہ ویب سائٹ کے مطابق تاریخ کی کتابوں میں 3 ایسی خواتین کا تذکرہ بھی ملتا ہے جنہوں نے غلاف کعبہ تیار کیا تھا۔ ان میں سے النوار بنت مالک پہلی مشہور خاتون ہیں جنہوں نے غلاف کعبہ تیار کیا تھا۔ وہ صحابی رسول حضرت زید بن ثابت کی والدہ تھیں۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ زید کی پیدائش سے قبل میں جب امید سے تھی
تومیرے ذہن میں غلاف کعبہ کی تیاری کا خیال پیدا ہوا۔ میں نے عربوں سے سن رکھا تھا کہ غلاف کعبہ کی تیاری بہت بڑے اعزاز اور شرف کا کام ہے۔اسلام کی آمد سے پہلے غلافِ کعبہ تیارکرنے والی خواتین میں ایک نام نتیلہ بنت جناب ام عباس بن عبدالمطلب کا بھی ملتا ہے۔ انہوں نے ریشم سے غلاف کعبہ کی متعدد اقسام تیار کیں۔تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے چچا عباس بن عبدالمطب چھوٹی عمر میں گم ہوگئے تو ان کی والدہ نے یہ نذرمانی کہ اگر ان کا صاحبزادہ مل گیا تو وہ غلاف کعبہ تیار کریں گی ۔ جب حضرت عباس مل گئے
تو ان کی والدہ نے غلاف کعبہ بنانے کی نذر پوری۔نتیلہ آخری خاتون تھیں جنہوں نے قریباً 1500 سال قبل غلاف کعبہ تیار کیا۔بعد ازاں یہ شرف اہل قریش کے پاس ہی رہا اور کسی اور خاتون کا غلاف کعبہ کی تیاری میں کوئی کردار نہیں ملتا
Leave a Comment