علمی سپاٹ! انسانی حیات کی ابتداء طہارت سے ہے اور انتہاء بھی طہارت ہے ۔ اس سے لاتعلقی زوال حیات ہے ۔ اس کی پابندی صحت ہے ۔طہارت سے غفلت ثقل حیات ہے یہی وجہ ہے کہ نگاہ نبوت میں طہارت وسیع المانع لفظ ہے اس لیے رسول اللہﷺ نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا صفائی یعنی پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ یاد رہے کہ ایمان کا تعلق انسان کے قول سے بھی ہے ۔
انسان ایمان سے ہے اور ایمان انسان سے ہے ۔طہارت وپاکیزگی کو ایمان کا حصہ فرمایا ہے یادرہے کہ اللہ تعالیٰ نے طہارت کا ذکر قرآن پاک میں مختلف انداز میں فرمایا ہےکہ ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے (سورۃ بقرۃ آیت نمبر 222)۔ ان ارشادات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ طہارت و پاکی کا تعلق صرف بدن اور کپڑوں سے ہے۔ بل کہ حقیقت میں اس کے چار درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو باطن کو شرک سے پاک کرنا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ جب دل شرک سے پاک ہوگا تو تب ہی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسلک ہوگا۔ اور یہی کلمہ طیّبہ لا الہ الا اللہ کی تحقیق ہے۔دوسرا درجہ حسد، تکبر، ریا، حرص، عداوت اور رعونت وغیرہ جیسے اخلاق رذیلہ سے دل کو پاک
کرنا ہے۔تاکہ دل تواضع ، قناعت، توبہ، صبر، رجا اور محبت جیسے اچھے اخلاق سے آراستہ ہوجائے اور یہ متقی لوگوں کے ایمان کا درجہ ہے۔ ناپسندیدہ اخلاق سے دل کو پاک کرنا نصف ایمان ہے۔ تیسرا درجہ غیبت، جھوٹ ، خیانت، نامحرمات کو دیکھنا اور اس قسم کے گن اہوں سے اعضاء کو پاک رکھنا ہے تاکہ یہ تمام اعضاء نیکی کے کاموں میں فرماں برداری و ادب سے آراستہ ہو جائیں اور یہ زاہدوں کے ایمان کا درجہ ہے۔ چوتھا درجہ کپڑے اور بدن کو نجات سے پاک رکھنا ہےتاکہ رکوع و سجود وغیرہ ارکان نماز سے آراستہ ہوجائیں اور یہ عام مسلمانوں کی طہارت کا درجہ ہے۔ اس لیے کہ مسلمان اور کافر میں نماز ہی فرق کرنے والی چیز ہے۔ تو یہ طہارت بھی نصف ایمان ہے۔اس سے معلوم ہو ا کہ
ایمان کے چاروں درجات پر پاکی نصف ایمان ہے۔ بدن اور کپڑے کی طہارت و پاکیزگی کی طرف تو سب لوگ متوجہ بھی ہوتے ہیںاور اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ تو آخری درجے کی پاکی ہے۔ اس میں توجہ اور انہماک کی وجہ یہ ہے کہ طہارت کی باقی اقسام سے یہ آسان ہے اور اس سے نف س بھی خوش ہوتا اور آرام بھی محسوس کرتا ہےاور دوسرے لوگ بھی اس ظاہری پاکی کو دیکھتے اور اسی سے اس کے زہد و پارسائی کا چرچا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگوں کو آسان معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک حسد، ریا، حبِ دنیا سے دل کو پاک کرنے اور گن اہوں سے بدن کو صاف کرنے کا تعلق ہے، اس میں نف س کا کچھ حصہ نہیں یعنی اس میں نف س کو لطف نہیں ملتا اور نہ ہی مخلوق کی نگاہ اس پر پڑتی ہے۔
اس کے علاوہ فقہاء کے مطابق ناپاک کپڑوں میں سونے کو درست فرمایا گیا ہے یعنی بندہ ناپاک کپڑوں میں سوسکتا ہے اس میں کراہیت بتائی گئی ہے یعنی یہ ناپسندہ عمل ہے اور طہارت کے تقاضوں کیخلاف ہے اسی لیے چاہیے کہ ایسا کرنے سےاجتناب کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سمجھ نصیب فرمائے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
Leave a Comment