والد مزدور تھا ۔ بھائی بھی مزدور تھے , بھائیوں نے مل کر اس کی شادی ایک مزدور کے ساتھ کر دی ۔ ایک بات پر یقین کر لیں عورت سراپا رحمت ہے ۔ چاہے ماں کی صورت بیوی کی صورت , بہن کی صورت یا بیٹی کی صورت میں ہو بات ہے آپ کی نیت کی اور اگر آپ کی نیت نیک ہے تو آپ اس رحمت کے حقدار بن جائیں گے اور اگر آپ کی نیت میں فتور ہے
تو سراپا رحمت تو کیا رحمت خداوندی بھی آپ سے روٹھ جائے گی ۔ خیر اس مزدور کی نیت نیک تھی ۔ بیوی کی صورت میں وہ ہر قسم کی رحمت کا حقدار بن بیٹا ۔ کچھ وہ پہلے سے محنتی تھا اور پھر اسے بیرون ملک جانے کا موقع بھی مل گیا ۔ اس کے قدم مضبوط ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی کو بھی اپنے پاس بلا لیا ۔ غریب کی بیٹی خوشحال ہو چکی تھی اور اب اس کی زندگی کا ہر دن یوم عید تھا تو ہر رات شب برات تھی مگر اس عالم میں بھی وہ اپنے ابو اور بھائیوں کو نہیں بھولی تھی ۔ پر دیں میں دو سال گزر چکے تھے ۔ جب ایک دن اسے اپنے ابو اور بھائیوں کی یاد نے تڑپا ڈالا ۔ اس کے شوہر نے اس کی خواہش کا احترام کیا اور اب وہ وطن واپس لوٹ رہی تھی ۔ اس نے اپنی واپسی کی کسی کو اطلاع نہیں دی
کیونکہ اپنے گھر پہنچ کر وہ اچانک سب کو خوشی دینا چاہتی تھی اور خوشی پانا چاہتی تھی ۔ وطن پہنچ کر وہ سب سے پہلے اپنی – امی کے پاس گئی امی تو شہر خاموشاں میں ابدی نیند کے مزے لے رہی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اس کی آمد پر امی کو سکون ضرور ملا ہو گا ۔ پھر وہ اپنے گھر پہنچی تو اسے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر اس کے بھائی پریشان ہو گئے , ابو کہاں ہے ! اس نے سوال پوچھا ۔ اس سوال کا جواب دینا تمام بھائیوں کے لئے مشکل ہو رہا تھا پھر اسے ایک پڑوسن سے اپنے سوال کا جواب مل گیا اور سراغ بھی مل گیا ۔ نالائیک بیٹوں نے اپنے باپ کو گھر سے نکال دیا تھا ۔ اور اب اس کا باپ ایک جو نپڑی میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا تھا ۔ وہ اپنے باپ کے پاس پہنچ گئی ۔
اس کا باپ مضبوط اعصاب کا مالک تھا مگر اپنی بیٹی کی ایک بات سن کر وہ رو پڑا ۔ چلیں ابو اب آپ میرے ساتھ ہی رہیں گے , روتے روتے اس نے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام لیا اور بولا میں نے اپنی ساری زندگی زندگی کا مقابلہ کرتے گزار دی , زندگی میں میں بس دو بار رویا ہوں , ایک بار تب جب تم پیدا ہوئی تھی تو میں شرمندگی کے احساس سے رویا تھا اور دوسری بار آج جب تم نے مجھے سہارا دینے کی بات کی ہے ۔ باپ کی بات سن کر بیٹی بھی چھوٹ پھوٹ کر رونے گی ۔ رحمت تو بس رحمت ہوتی ہے چاہے کوئی اس کی قدر کرے یا نہ کرے
Leave a Comment